وطن میں کوئی کہیں اک نشاں ہے تو سہی
جلا ہوا ہے مگر اک مکان ہے تو سہی
کبھی رُلاتی تو ہو گی تجھے بھی یاد میری
یقین مجھ کو نہیں پر گمان ہے تو سہی
زبان گنگ ہے کہنے سے کچھ قاصر ہے
پر آنکھ دل کی میرے ترجمان ہے تو سہی
فقیرِ شہر کو آسائشوں سے کیا مطلب
سروں پہ چھت نہ سہی آسمان ہے تو سہی
یہ اور بات کوئی بولتا نہیں کچھ بھی
ہر ایک شخص کے منہ میں زبان ہے تو سہی
اب اور جاؤں کہاں لے کے اپنی بوڑھی ماں
بس یہ اک ایدھی کا دارالامان ہے تو سہی
انا کے مارے ہوئے میر سبھی ہم لوگ
انا ہماری طلب کا نشان ہے تو سہی
اشتیاق میر
No comments:
Post a Comment