Thursday, 14 March 2024

بنا بیٹھا ہے گھر سارے جہاں کو

بنا بیٹھا ہے گھر سارے جہاں کو

کوئی تنہا نہ سمجھے بے مکاں کو

نہ راز افشا کرو ہمراز پر بھی

خبر ہو جائے گی سارے جہاں کو

ذرا سی بات پر جو روٹھ جائے

خدا ہی سمجھے ایسے بدگماں کو

جہاں کانٹے ہی کانٹے اگ رہے ہوں

لگا دو آگ ایسے گلستاں کو

ہمی کچھ کر نہ پائے غیر نے تو

کھنگالا ہے زمین و آسماں کو

وفا داری عدو سے کیوں نبھاؤں

میں شرمندہ کروں کیوں مہرباں کو 

اسے حیرت سے دنیا تک رہی ہے

ہوا کیا ہے وطن کے پاسباں کو

ستارے چاند سورج ہیں اسی کے

ہے اس پر ناز کتنا  آسماں کو

کرو مت محو یادیں رفتگاں کی

رکھو یاد اپنے محسن رفتگاں کو

پڑا خود امتحاں میں آج وہ میر

جو کل آیا تھا میرے امتحاں کو


اشتیاق میر

No comments:

Post a Comment