بنا بیٹھا ہے گھر سارے جہاں کو
کوئی تنہا نہ سمجھے بے مکاں کو
نہ راز افشا کرو ہمراز پر بھی
خبر ہو جائے گی سارے جہاں کو
ذرا سی بات پر جو روٹھ جائے
خدا ہی سمجھے ایسے بدگماں کو
جہاں کانٹے ہی کانٹے اگ رہے ہوں
لگا دو آگ ایسے گلستاں کو
ہمی کچھ کر نہ پائے غیر نے تو
کھنگالا ہے زمین و آسماں کو
وفا داری عدو سے کیوں نبھاؤں
میں شرمندہ کروں کیوں مہرباں کو
اسے حیرت سے دنیا تک رہی ہے
ہوا کیا ہے وطن کے پاسباں کو
ستارے چاند سورج ہیں اسی کے
ہے اس پر ناز کتنا آسماں کو
کرو مت محو یادیں رفتگاں کی
رکھو یاد اپنے محسن رفتگاں کو
پڑا خود امتحاں میں آج وہ میر
جو کل آیا تھا میرے امتحاں کو
اشتیاق میر
No comments:
Post a Comment