کوئی رُت بھی نہیں دنیا میں سُہانی دل سے
کتنی بے کیف رہی نقل مکانی دل سے
تم نے جو درد کا بادل سا اُمڈتے دیکھا
یہ تو نِکلی ہے مِری رنج بیانی دل سے
کتنے چہرے ہیں نئے، آنکھ میں آتے جاتے
ہائے، جاتی ہی نہیں شکل پرانی دل سے
کیا خبر ہم بھی زمانے کو بہا لے جاتے
پُھوٹ نِکلی ہی نہیں کوئی روانی دل سے
سب مروّت میں مِری بات سُنے جاتے ہیں
مانتا کوئی نہیں میری کہانی دل سے
اب جُدا کرنے سے دونوں نہیں بچتے نیر
سخت لِپٹی ہے کوئی یاد پرانی دل سے
شہزاد نیر
No comments:
Post a Comment