Thursday 28 March 2024

یہ بات کیا ہے کہ دل کو ذرا لگاتے ہیں

 یہ بات کیا ہے کہ دل کو ذرا لگاتے ہیں 

لگانا ہو تو پھر اچھی طرح لگاتے ہیں 

دبا کے رکھا ہے گہری گھٹن میں تو نے اسے

ادھر تو آ، ترے دل کو ہوا لگاتے ہیں

وہ بات کرتے تھے میری وفا پرستی کی

مجھے لگا کہ وہ الزام سا لگاتے ہیں 

عجیب ڈھنگ نکالا ہمارے یاروں نے

بتاتے کچھ نہیں، دل میں گرہ لگاتے ہیں

سنا ہے تیرا بھی دنیا میں جی نہیں لگتا

شرابِ ناب ادھر لے کے آ ، لگاتے ہیں

سوال نامہ محبت کا ہم نے سہل کیا

سوال دو ہیں اور ان میں بھی "یا" لگاتے ہیں

ہمارے شعر اداسی کی چیخ بن کے اٹھے

جہاں بھی دل نہیں لگتا، صدا لگاتے ہیں

جو قید خانۂ دنیا میں جی نہیں لگتا

نقب فلک کی فصیلوں میں جا لگاتے ہیں

ہمارے جیسے یہاں خال خال ہیں نیر

جو عکسِ یار کو دل کی جگہ لگاتے ہیں


شہزاد نیر

No comments:

Post a Comment