یہ بات کیا ہے کہ دل کو ذرا لگاتے ہیں
لگانا ہو تو پھر اچھی طرح لگاتے ہیں
دبا کے رکھا ہے گہری گھٹن میں تو نے اسے
ادھر تو آ، ترے دل کو ہوا لگاتے ہیں
وہ بات کرتے تھے میری وفا پرستی کی
مجھے لگا کہ وہ الزام سا لگاتے ہیں
عجیب ڈھنگ نکالا ہمارے یاروں نے
بتاتے کچھ نہیں، دل میں گرہ لگاتے ہیں
سنا ہے تیرا بھی دنیا میں جی نہیں لگتا
شرابِ ناب ادھر لے کے آ ، لگاتے ہیں
سوال نامہ محبت کا ہم نے سہل کیا
سوال دو ہیں اور ان میں بھی "یا" لگاتے ہیں
ہمارے شعر اداسی کی چیخ بن کے اٹھے
جہاں بھی دل نہیں لگتا، صدا لگاتے ہیں
جو قید خانۂ دنیا میں جی نہیں لگتا
نقب فلک کی فصیلوں میں جا لگاتے ہیں
ہمارے جیسے یہاں خال خال ہیں نیر
جو عکسِ یار کو دل کی جگہ لگاتے ہیں
شہزاد نیر
No comments:
Post a Comment