سخن سے بھرتے تھے صفحات، کاٹ دیتے تھے
ہم اِس عمل میں ہر اک رات کاٹ دیتے تھے
دُکھی نہ ہو، فقط اُجرت کٹی ہے، اے معمار
سنا ہے پہلے یہاں ہاتھ کاٹ دیتے تھے
فرشتے میری مناجات لکھتے تھے، لیکن
خدا سے میری شکایات کاٹ دیتے تھے
اسی لیے مجھے عادت ہے تیز بولنے کی
کہ بچپنے میں بڑے بات کاٹ دیتے تھے
غلط سوال بہت پوچھتا تھا سو استاد
مِرے درست جوابات کاٹ دیتے تھے
وہ وقت شب میں مجھے کاٹنے کو آتا تھا
جو دن میں آپ مِرے ساتھ کاٹ دیتے تھے
میں آس پاس کے پیڑوں سے خوب الجھتا تھا
سو باغبان مِرے پات کاٹ دیتے تھے
عمیر نجمی
No comments:
Post a Comment