ہے تحیر زدہ اس شہر میں خاموشی بھی
کہ سنائی نہیں دیتی کوئی سرگوشی بھی
دل گرفتار تذبذب ہے کدھر کو جائے
گھر بھی یاد آتا ہے اور دشت فراموشی بھی
یہ حقیقت ہے کہ بے مثل ہے خود اس کی طرح
اس خوش اندام کی خوش باشی و خوش پوشی بھی
ایک دیوار سے مل جاتا ہے سایہ بھی ہمیں
اور چاہیں تو کچھ احساس ہم آغوشی بھی
مصلحت ہوگی کوئی پیش نظر دھیان رہے
اتنی سادہ تو نہیں شیخ کی مدہوشی بھی
معین نظامی
No comments:
Post a Comment