Sunday 17 March 2024

ہے تحیر زدہ اس شہر میں خاموشی بھی

 ہے تحیر زدہ اس شہر میں خاموشی بھی

کہ سنائی نہیں دیتی کوئی سرگوشی بھی

دل گرفتار تذبذب ہے کدھر کو جائے

گھر بھی یاد آتا ہے اور دشت فراموشی بھی

یہ حقیقت ہے کہ بے مثل ہے خود اس کی طرح

اس خوش اندام کی خوش باشی و خوش پوشی بھی

ایک دیوار سے مل جاتا ہے سایہ بھی ہمیں

اور چاہیں تو کچھ احساس ہم آغوشی بھی

مصلحت ہوگی کوئی پیش نظر دھیان رہے

اتنی سادہ تو نہیں شیخ کی مدہوشی بھی


معین نظامی

No comments:

Post a Comment