میں دیکھنے میں تو حوصلے سے کھڑا ہوا تھا
مگر میں اندر سے یار پورا ڈرا ہوا تھا
تو میرے لاشے پہ اس قدر بھی نہ ہو فسردہ
میں اپنے مرنے سے پہلے بھی تو مرا ہوا تھا
یہ نیم گریہ، سکوت شب اور ذرا سی وحشت
خدا سے ملنے کا اک وسیلہ بنا ہوا تھا
اداسی آئی تھی میرے در پر دلاسہ دینے
میں گھر نہیں تھا کسی سے ملنے گیا ہوا تھا
تو کیوں نہ خوابوں میں مجھ کو جنت دکھائی دیتی
میں ماں کی جھولی میں سر جو رکھ کے پڑا ہوا تھا
میں اس لیے مطمئن بہت تھا کہ مجھ کو اس نے
میں بس تمہارا ہوں، کافی پہلے کہا ہوا تھا
اجڑ گئے آشیاں پرندوں کے ہائے ہائے
ہمارے گاؤں میں ایک فتنہ بپا ہوا تھا
حسنین آفندی
No comments:
Post a Comment