Sunday, 17 March 2024

میں دیکھنے میں تو حوصلے سے کھڑا ہوا تھا

 میں دیکھنے میں تو حوصلے سے کھڑا ہوا تھا

مگر میں اندر سے یار پورا ڈرا ہوا تھا

تو میرے لاشے پہ اس قدر بھی نہ ہو فسردہ

میں اپنے مرنے سے پہلے بھی تو مرا ہوا تھا

یہ نیم گریہ، سکوت شب اور ذرا سی وحشت

خدا سے ملنے کا اک وسیلہ بنا ہوا تھا

اداسی آئی تھی میرے در پر دلاسہ دینے

میں گھر نہیں تھا کسی سے ملنے گیا ہوا تھا

تو کیوں نہ خوابوں میں مجھ کو جنت دکھائی دیتی

میں ماں کی جھولی میں سر جو رکھ کے پڑا ہوا تھا

میں اس لیے مطمئن بہت تھا کہ مجھ کو اس نے

میں بس تمہارا ہوں، کافی پہلے کہا ہوا تھا

اجڑ گئے آشیاں پرندوں کے ہائے ہائے

ہمارے گاؤں میں ایک فتنہ بپا ہوا تھا


حسنین آفندی

No comments:

Post a Comment