کیوں تجھے ڈر ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گی
میں تو نکہت ہوں، فضاؤں میں بکھر جاؤں گی
ساری دنیا سے کٹی ہوں تجھے پانے کے لیے
تُو نے ٹُھکرا دیا مجھ کو تو کدھر جاؤں گی
تُو مِرے حالِ پریشاں سے پریشان نہ ہو
لمس پا کر تِری خُوشبو کا میں نکھر جاؤں گی
جب وہی شہر میں نہ ہو تو سنورنا کیسا
خود بخود دیکھ کے اس کو میں سنور جاؤں گی
فون پر پُوچھے گا کہ کیسی ہو تو کہہ دوں گی کہ خوش
میں فقط اس کی تسلی کو مُکر جاؤں گی
میں کوئی چاند نہیں ہوں کہ چُھپا لوں چہرہ
میں ہوں ہمراہئ شب، تا بہ سحر جاؤں گی
وعدۂ ترکِ تعلق کو کروں گی ایفاء
تِرے خوابوں سے دبے پاؤں گُزر جاؤں گی
نکہت افتخار
No comments:
Post a Comment