Friday 22 March 2024

عاجزی آج ہے ممکن ہے نہ ہو کل مجھ میں

 عاجزی آج ہے ممکن ہے نہ ہو کل مجھ میں

اس طرح عیب نکالو نہ مسلسل مجھ میں

زندگی ہے مِری ٹھہرا ہوا پانی جیسے

ایک کنکر سے بھی ہو جاتی ہے ہلچل مجھ میں

میں بظاہر تو ہوں اک ذرہ زمیں پر، لیکن

اپنے ہونے کا ہے احساس مکمل مجھ میں

آج بھی ہے تِری آنکھوں میں تپش صحرا کی

کروٹیں لیتا ہے اب بھی کوئی بادل مجھ میں

جو اندھیروں میں مِرے ساتھ چلا بچپن سے

اب وہ تارا بھی کہیں ہو گیا اوجھل مجھ میں

خواہشیں آ کے لِپٹ جاتی ہیں سانپوں کی طرح

جب مہکتا ہے تِری یاد کا صندل مجھ میں

اب وہ آیا تو بھٹک جائے گا رستہ نصرت

اب گھنا ہو گیا تنہائی کا جنگل مجھ میں


نصرت مہدی

No comments:

Post a Comment