Friday, 22 March 2024

آپ تو عشق میں دانائی لیے بیٹھے ہیں

آپ تو عشق میں دانائی لیے بیٹھے ہیں

اور دِوانے ہیں کہ رُسوائی لیے بیٹھے ہیں ہم

خانۂ ہجر میں یادیں تِری رقصاں ہوں گی

ہم اسی شوق میں تنہائی لیے بیٹھے ہیں

تجربہ ہم پہ تغافل کا نہ کیجے، ورنہ

کچھ ہُنر ہم بھی کرشمائی لیے بیٹھے ہیں

ایک مُدت سے وہ وحشت ہے کہ بس کیا کہیے

گھر میں ہم اک دلِ صحرائی لیے بیٹھے ہیں

تقویت عظمت کردار سے پائی ہے کہ ہم

ناتوانی میں توانائی لیے بیٹھے ہیں

تالیاں آج یہاں خُوب بجیں گی نصرت

سب کے سب اپنے تماشائی لیے بیٹھے ہیں


نصرت مہدی

No comments:

Post a Comment