بے خبری کی آغوش
انہیں سردی نہیں لگتی
انہیں ذِلّت کی ساعت نے پرانے سیم نالوں کے
کناروں پر گھسیٹا ہے
اور ان کے کالے ہونٹوں پر
لگی ہے مُہر صدیوں سے
یہ کلّر تھور دھرتی میں
ہری خواہش کو بونے کی مشقّت میں لگے ہیں
یہاں سائبیریا سے آئے پکھنؤ جب بھی کُوندر میں مچلتے ہیں
تو گارے سے بنیرے لیپ کرنے والیوں کے چولہے چلتے ہیں
کبھی چارے کی کُھرلی میں پڑے شلجم
وگرنہ ساگ اور آدھی ادھوری روٹیاں
سُوکھے بدن میں سوچ بھی لُکنت زدہ سرگوشیاں؛
چاچا! خدا دا شُکر کردے ہاں
جے اُس ساڈے تے ایہہ ازمیش پائی اے
جو اوہ کردا ہمیشہ ٹھیک ہی کردا
پر ایہ دسیں جو نمبردار مرسی وت ایہ اوکھت گھٹ نہ ویسی؟
کبھی خوابوں کی گٹھڑی کو اُٹھانے سے سفر مُشکل نہیں ہوتا
مگر سُورج تو روزانہ ہی مشرق سے نکلتا ہے
اور آنکھوں کا حسیں عدسہ سُکڑتا ہے
زوال آئے تو مغرب میں وہ چُھپتا ہے
ہمیشہ چندر اور مایا کئی میلوں پہ بستے ہیں
انہیں بستی میں آنے کا کبھی رستہ نہیں ملتا
ہمیشہ پوہ رہتا ہے
پرالی کے سُلگنے سے کہاں یہ ٹھنڈ جاتی ہے
انہیں سردی نہیں لگتی
ارشد معراج
No comments:
Post a Comment