Sunday 31 March 2024

آگہی کا عذاب جھیلا ہے

 آگہی کا عذاب جھیلا ہے

ہم نے جی ہاں جناب جھیلا ہے

نظم لکھتی ہوں دل کی خوشبو سے

ان کا دیکھا جوخواب جھیلا ہے

زندگی کی تلاش میں ہم نے

جو ہے  لکھا نصاب جھیلا ہے

عشق کارِ ثواب سمجھا تھا

ہم نے کر کے عذاب جھیلا ہے

اب سمندر مجھے ڈرائے گا

میں نے غم کا چناب جھیلا ہے

خُلد کی اب تو مستحق ہوں میں

زندگی تھی عذاب جھیلا ہے

لوگ کر کے گناہ جھیلتے ہیں

ہم نے کر کے ثواب جھیلا ہے


رفعت انجم

No comments:

Post a Comment