آگہی کا عذاب جھیلا ہے
ہم نے جی ہاں جناب جھیلا ہے
نظم لکھتی ہوں دل کی خوشبو سے
ان کا دیکھا جوخواب جھیلا ہے
زندگی کی تلاش میں ہم نے
جو ہے لکھا نصاب جھیلا ہے
عشق کارِ ثواب سمجھا تھا
ہم نے کر کے عذاب جھیلا ہے
اب سمندر مجھے ڈرائے گا
میں نے غم کا چناب جھیلا ہے
خُلد کی اب تو مستحق ہوں میں
زندگی تھی عذاب جھیلا ہے
لوگ کر کے گناہ جھیلتے ہیں
ہم نے کر کے ثواب جھیلا ہے
رفعت انجم
No comments:
Post a Comment