کہ پیسہ بولتا ہے؛ قوالی
سنسار میں باجے ڈھول
یہ دنیا میری طرح ہے گول
کہ پیسہ بولتا ہے
قارون نے مجھ کو پوجا تھا
فرعون بھی میرا شیدا تھا
شدّاد کی جنت مجھ سے بنی
نمرود کی طاقت مجھ سے بڑھی
جب چڑھ گیا میرا خمار
خدا کے ہو گئے دعویدار
کہ پیسہ بولتا ہے
ہر شخص ہے میرے چکر میں
ہے میری ضرورت گھر گھر میں
جسے چاہوں وہ خوشحال بنے
جسے ٹھکرا دوں گنگال بنے
یہ شیش محل یہ شان
میرے دم سے پائے دھنوان
کہ پیسہ بولتا ہے
میں آپس میں لڑواتا ہوں
لالچ میں گلہ کٹواتا ہوں
جہاں میرا سایہ لہرائے
کستوری خون کی چھپ جائے
میں کہہ دیتا ہوں صاف
میرے ہاتھوں میں ہے انصاف
کہ پیسہ بولتا ہے
کہیں ہدیہ ہوں کہیں رشوت ہوں
کہیں غنڈہ ٹیکس کی صورت ہوں
کہیں مسجد کا میں چندہ ہوں
کہیں جان کا گورکھ دھندا ہوں
یہ ہیں پکے میرے یار
مولوی پنڈت تھانیدار
کہ پیسہ بولتا ہے
جب لیڈر میں بن جاتا ہوں
چکر میں قوم کو لاتا ہوں
پھر ایسا جال بچھاتا ہوں
میں من کی مرادیں پاتا ہوں
میں جس پہ لگا دوں نوٹ
نہ جائے باہر اس کا ووٹ
کہ پیسہ بولتا ہے
ہر ساز میں ہے سنگیت میرا
فنکار کے لب پر گیت میرا
ہر رقص میں ہے رفتار میری
ہر گھنگھرو میں جھنکار میری
یہ محفل یہ سُر تال
ہو گانے والی یا قوال
کہ پیسہ بولتا ہے
کوئی سائیں تھا آباد رہا
میری زلفوں سے آزاد رہا
ہر دور میں زندہ باد رہا
اور دونوں جگ میں شاد رہا
رب بخشے جسے ایمان
چھڑائے مجھ سے اپنی جان
کہ پیسہ بولتا ہے
سائل آزاد
No comments:
Post a Comment