Friday, 15 March 2024

نہ ابتداء ہے نہ کوئی انجام آج کل

 نہ ابتداء ہے نہ کوئی انجام آج کل

دن سارے ہو گئے ہیں بے نام آج کل

انسان ڈر رہا ہے انساں کے ساتھ سے

پھیلا ہوا ہے خوف سا ہر گام آج کل

فردا کا خوف ہے کبھی ماضی کے تذکرے

بے حال ہے ہماری ہر شام آج کل

بڑی تلخ ہو گئی ہے دنیائے حقائق

خواہوں میں ہے ہمارا بِسرام آج کل

گلیاں وِیراں پڑی ہیں کوئی منچلا نہیں

جلوہ بھی نہیں کوئی سرِ بام آج کل

اے سعید! میر و غالب ہوتے جو ان دنوں

سُنتے وہ صرف خبریں دل تھام آج کل


سعید عباس 

No comments:

Post a Comment