نہ ابتداء ہے نہ کوئی انجام آج کل
دن سارے ہو گئے ہیں بے نام آج کل
انسان ڈر رہا ہے انساں کے ساتھ سے
پھیلا ہوا ہے خوف سا ہر گام آج کل
فردا کا خوف ہے کبھی ماضی کے تذکرے
بے حال ہے ہماری ہر شام آج کل
بڑی تلخ ہو گئی ہے دنیائے حقائق
خواہوں میں ہے ہمارا بِسرام آج کل
گلیاں وِیراں پڑی ہیں کوئی منچلا نہیں
جلوہ بھی نہیں کوئی سرِ بام آج کل
اے سعید! میر و غالب ہوتے جو ان دنوں
سُنتے وہ صرف خبریں دل تھام آج کل
سعید عباس
No comments:
Post a Comment