سنو شکوے گلے اچھے نہیں لگتے
سنو شکوے گلے اچھے نہیں لگتے
چلو کچھ دیر کو اس سلسلے کو چھوڑ کر دیکھو
ذرا دُکھ نا تمامی کے یہاں پر بُھول کر سوچو
غموں کا بار اوروں کے کبھی خود بھی اُٹھا لو تم
خزاں کی رُت میں بھی ابر بہاراں کی دُعا دو تم
پرندے چہچہاتے ہر شجر کے ہوں
دِیے روشن کسی تاریک گھر کے ہوں
بس اپنے پیاروں کی اب خیر ہو مولا
نظاروں کی
ستاروں کی
یہاں پر خیر ہو مولا
رابعہ سرفراز
No comments:
Post a Comment