بدن تھکے ہوئے مسدود راستے ہیں دکھ
جو منزلوں پہ نہ پہنچے وہ قافلے ہیں دکھ
کھلے گلاب، کھلی کھڑکیاں، حسین چہرے
جہاں گئے ہیں وہیں ہم کو مل گئے ہیں دکھ
تمہارے نقش قدم، شاخ سے گرے پتے
ہماری راہ میں کتنے بچھے ہوئے ہیں دکھ
کسی کی آنکھ کے آنسو سوال کرتے ہیں
ستارے ہیں کہ فلک پر چمک رہے ہیں دکھ
خموشیوں سے تو مفہوم یہ نکلتا ہے
کہ اپنا اپنا سبھی لوگ رو رہے ہیں دکھ
چھلکنے لگتا ہے آنکھوں کے سرخ ڈوروں سے
ہم اپنے جسم میں اتنا انڈیلتے ہیں دکھ
نئے زمانے کا آغاز ہو گیا ناصر
کسی نے خواب میں آ کر چرا لیے ہیں دکھ
ناصر بشیر
No comments:
Post a Comment