اب اپنی پہچان بنا کر چھوڑوں گا
میں خود کو انسان بنا کر چھوڑوں گا
اب کہ زور نہیں چلنے دینا اِس کا
عشق کو میں دربان بنا کر چھوڑوں گا
زہر کشید کروں گا تھوڑی سی تم سے
اور پھر اک حیوان بنا کر چھوڑوں گا
تھوڑی سی مٹی لے کر، ہم دونوں کی
ایک ہی جسم اور جان بنا کر چھوڑوں گا
قید تو میں آنکھوں سے بھی کر سکتا ہوں
پھر بھی اک زِندان بنا کر چھوڑوں گا
اپنی آگ میں پھینکوں گا سب خواب تِرے
اب خود میں شمشان بنا کر چھوڑوں گا
تم بِن خود کو اتنا بنجر کر لوں گا
دشت کو بھی حیران بنا کر چھوڑوں گا
لکڑہارے! تیری موت تو پکّی ہے
جب میں تِیر کمان بنا کر چھوڑوں گا
جنگل کے حالات پتہ کروانے ہیں
اک پنچھی سلمان بنا کر چھوڑوں گا
شعر دوا بن کر ہر مرض کو ٹالیں گے
مین خود کو لقمان بنا کر چھوڑوں گا
نام خدا کا لے کر، ہمت کر کے میں
ہر مشکل آسان بنا کر چھوڑوں گا
سلمان بشیر
No comments:
Post a Comment