سرِ شام جب بھی دِیا جلا تو خیال تیری طرف گیا
کوئی تازہ بابِ سخن کُھلا تو خیال تیری طرف گیا
کسی اجنبی سے دیار میں، کسی بےکسی کے غبار میں
کوئی اپنے شہر کا مِل گیا تو خیال تیری طرف گیا
کوئی شام دل کو بھلی لگی تو زمیں ستاروں سے بھر گئی
کہیں چاند ابر میں چُھپ گیا تو خیال تیری طرف گیا
مِرے ہمسفر تو نہیں تھے وہ، مِرے ہم سخن بھی نہیں تھے وہ
مجھے راستے میں پتہ چلا تو خیال تیری طرف گیا
جو تِری خلاف لکھی گئی، وہ کتاب دل نے پڑھی نہیں
بہت اچھا شعر کہیں سُنا تو خیال تیری طرف گیا
منور جمیل
No comments:
Post a Comment