اس کو منزل میں جب دکھا آیا
خود کو رستہ میں تب بنا آیا
پاؤں چومے تھے جس گھڑی ماں کے
مجھ سے ملنے، مرا خدا آیا
یاں سے رستہ خدا کو جاتا ہے
سب سے پہلے میں کربلا آیا
تجھ کو مانگا تھا اپنے مولا سے
دے کے تیرا ہی واسطہ آیا
کیسے زندہ رہے گی اب تو میں
اپنی تصویر بھی جلا آیا
دل سے کہتا ہوں چھوڑ دوں اس کو
دل یہ کہتا ہے، تو بڑا آیا
جب بھی بانٹا گیا مسافت کو
میرے حصے میں فاصلہ آیا
چھوڑ آیا ہوں کشتیاں لیکن
سارے دریا کو میں جلا آیا
بے پر و بال میری اس روح کو
جسم زندان میں مزا آیا
سفیر نوتکی
No comments:
Post a Comment