Monday 25 March 2024

میں جس کے در گیا وہی عالی مقام تھا

 میں جس کے در گیا، وہی عالی مقام تھا

سب حاکموں کے شہر میں، میں ہی عوام تھا

کٹھ پُتلیوں کی طرح سے ہے اب نچا رہا

ظالم کبھی یہ وقت بھی اپنا غلام تھا

نِکلا جو داستاں سے تو اس پہ شباب تھا

آیا جو لوٹ کر ہوں تو قصہ تمام تھا

کتنے خلوص سے کوئی پھر اجنبی ہوا

بُھولا ہے گھر کا راستہ جس میں قیام تھا

یہ دل عجیب شے ہے سمجھتا نہیں کبھی

اس کے کیے سلام کو سمجھا سلام تھا

مُڑ کر جو دیکھوں آج پشیمانیاں بہت

دو پل کی زندگی میں جو چاہا دوام تھا

ابرک تمہارے بعد بھی لکھا گیا بہت

پر مستند وہی تھا جو پچھلا کلام تھا


اتباف ابرک

No comments:

Post a Comment