Friday 29 March 2024

جب چراغوں پہ ہواؤں کے ستم ٹوٹ گئے

 جب چراغوں پہ ہواؤں کے سِتم ٹُوٹ گئے

شب کو خورشید پہ جتنے تھے بھرم ٹوٹ گئے

ہم کو رکھنے کا سليقہ بھی نہیں تھا اس کو

اس قدر زور سے پٹکا ہے کہ ہم ٹوٹ گئے

آج اس دل میں دبے پاؤں تیری یاد آئی

سانس لیتے ہوئے کتنے ہی قدم ٹوٹ گئے

دل کُشادہ بھی کیا، جان لڑا دی، لیکن

ٹوٹ جانے تھے محبت کے کرم ٹوٹ گئے

ہم نے دنیا کی عدالت میں یہی دیکھا ہے

عشق پر بات جب آئی تو قلم ٹوٹ گئے

زرد مٹی کے حوالے سے وہ تصویر بنی

جس کو دیکھا ہے تو پتھر کے صنم ٹوٹ گئے

اب تو ہر سمت بکھرنے کا مزہ چُھوٹ گیا

اب تو آواز کی شاخوں کے بھی دم توٹ گئے


ناصر راؤ

No comments:

Post a Comment