مسلمانو تمہیں پھر دیں پہ چلنے کی ضرورت ہے
خدا کی راہ میں سب کو نکلنے کی ضرورت ہے
جو وقت آئے تو شعلوں میں بھی جلنے کی ضرورت ہے
رہِ حق میں تمہیں کانٹوں پہ چلنے کی ضرورت ہے
چلوں سینچیں گے ہم خونِ جگر سے گلشن دیں کو
اسے اب پھولنے کی اور پھلنے کی ضرورت ہے
ابھی سے ساحلِ عشرت کی تم کو یاد کیوں آئی
ابھی آغوشِ طوفاں ہی میں پلنے کی ضرورت ہے
تمنا ہے اگر زندانِ باطل سے رہائی کی
تو پھر زنجیرِ پائے عیش گلنے کی ضرورت ہے
اگر سر سبز ہونا ہے نہالِ زندگانی کو
دلِ مضطر سے جوئے خُوں اُبلنے کی ضرورت ہے
فروغِ دیدۂ عالم کوئی یوں بن نہیں جاتا
مثال شمعِ محفل خوب جلنے کی ضرورت ہے
کلیمی شان عالم کو دکھانا گر کوئی چاہے
تو خود آغوش فرعونی میں پلنے کی ضرورت ہے
بہت سی ٹھوکریں کھائیں بہت آوارہ گردی کی
مسلمانوں تمہیں اب تو سنبھلنے کی ضرورت ہے
کبھی یہ سازگارِ مردِ مومن ہو نہیں سکتا
نظامِ کہنۂ عالم بدلنے کی ضرورت ہے
نہیں ہے وقت یہ گوشے میں چُھپ کر بیٹھ رہنے کا
کفن باندھے ہوئے سر پہ نکلنے کی ضرورت ہے
اٹھو کیوں تھک گئے اے رہروانِ جادۂ منزل
ابھی کچھ دور آگے اور چلنے کی ضرورت ہے
وہ دیکھو دامنِ انسانیت پر خُون کے دھبے
مہذب بھیڑیوں کا سر کچلنے کی ضرورت ہے
یہودیت جو پھیلانے لگی ہے اپنے پاؤں پھر
تمہیں سینے پہ اس کے مونگ دلنے کی ضرورت ہے
ادب کے ظرف میں حماد! ڈھالو بادۂ حق کو
زمینِ شعر کو سونا اُگلنے کی ضرورت ہے
ابوالبیان حماد عمری
عبدالرحمان خان
No comments:
Post a Comment