نئی کتابوں میں یہ بھی لکھنا
کہ پچھلا سارا سفر
تو ریت اور دھوپ کا تھا
درخت کے سائے میں فنا
اور ثمر میں زہریلے ذائقے تھے
ہوا سے پیاس اور خاک سے بھوک
ہم کو میراث میں ملی تھی
ہم اپنے اجڑے گھروں کی کچھ راکھ
اپنی بے چہرگی پہ مَلتے
کہ یوں ہی شاید
کوئی ہماری شناختوں کی سبیل بنتی
کوئی ہمارا جواز ہوتا
کوئی ہماری دلیل بنتی
نئے زمانوں کے نام لکھنا
کہ پچھلے قصوں کے ہر ورق میں
لہو کی بو تھی
سطور حرف وفا سے خالی تھیں صدق غائب تھا
یہ بھی لکھنا کہ چودہ صدیوں سے ہانڈیوں میں
اُبلتے پتھر گلے نہیں تھے
ہماری ماؤں نے اپنے بچوں کو
دہشتوں میں حنوط کر کے جنم دیا تھا
نئی کتابوں میں یہ بھی لکھنا
افتخار بخاری
No comments:
Post a Comment