تمہاری شکل مرے آئینے میں پڑتی ہے
یہ زندگی تو یونہی راستے میں پڑتی ہے
میں دن میں جھیلتا ہوں جون کو دسمبر میں
مگر یہ شام مجھے ملگجے میں پڑتی ہے
مِرے ہی پاؤں تلے آ گئی مِری آنکھیں
دِیے کی لَو تو فقط طاقچے میں پڑتی ہے
بٹن قمیض کا ٹوٹا تو یہ خیال آیا
تمہاری سانس مِرے دائرے میں پڑتی ہے
بتا رہا ہے مجھے اب گلی کا سوکھا شجر
خزاں بہار کے ہی قہقہے میں پڑتی ہے
تمہاری نیلگوں آنکھوں میں ڈوب جانا ہے
پر ایک جھیل مِرے راستے میں پڑتی ہے
بس اپنے شوقِ محبت سے ہوں بندھا ہوا میں
تجھے ہے جانا تو کیوں مخمصے میں پڑتی ہے
ارشد معراج
No comments:
Post a Comment