دیے کو جس طرح لازم ہے طاق چاہیے ہے
جنوں کو دل کا گریبان چاک چاہیے ہے
میں آشنائے عذابِ فراق ہوں سو مجھے
سزا ہو یا کہ عطا، کربناک چاہیے ہے
یہ بوترابؑ کی نسبت کا ہے اثر مجھ پر
سکوں کے واسطے بس مجھ کو خاک چاہیے ہے
یونہی نہیں مرے دل میں غموں کا سیلِ رواں
ان آنسوؤں کے لیے بھی خوراک چاہیے ہے
ارداتاً تو مِرا ہو نہیں سکے گا وہ شخص
سو اب کوئی نہ کوئی اتفاق چاہیے ہے
جو غم گزرتا ہے اس کی کسی کو فکر نہیں
سبھی کو اس کا سیاق و سباق چاہیے ہے
پسِ خیالِ غزل کچھ تو انتہائی ہو
سو اس غزل میں تِرا اشتراک چاہیے ہے
تہذیب حسین
No comments:
Post a Comment