Monday 25 March 2024

غم زندگی ہے اور شام و سحر ہے

 غم زندگی ہے اور شام و سحر ہے

یہ رونا زندگی کا عمر بھر ہے

یہاں کچھ بھی نہیں جُز حسرت و یاس

یہ دل ہے یا کسی شاعر کا گھر ہے

اِدھر اک عالمِ شوقِ فراواں

اُدھر اُس کی نگاہِ بے خبر ہے

بہت ہے مُختصر گُل کا تبسّم

کچھ اپنی زندگی بھی مُختصر ہے

خِرد بھی ماوریٰ سے لوٹ آئی

اُدھر بھی تو رہگُزر ہی رہگُزر ہے

قدم ٹکتے نہیں ہیں اس زمیں پر

دماغ انسان کا اب عرش پر ہے

کہاں تک آسماں کی سیر کرتے؟

کہ اب زیرِ زمیں بھی اک سفر ہے

یہ میّت کس کی ہے اے جانِ خُوبی

تجھے کچھ قاسمی کی بھی خبر ہے؟


رفعت القاسمی

No comments:

Post a Comment