عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ملی ہے یہ دولت رسولِ کریمﷺ
درودوں کی کثرت رسولِ کریمﷺ
یہاں آپ پر جو بھی ایمان لایا
نہیں اس کی قیمت رسول کریمﷺ
بساؤں مدینے میں گھر بار اپنا
مِری ہے یہ حسرت رسولِ کریمﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ملی ہے یہ دولت رسولِ کریمﷺ
درودوں کی کثرت رسولِ کریمﷺ
یہاں آپ پر جو بھی ایمان لایا
نہیں اس کی قیمت رسول کریمﷺ
بساؤں مدینے میں گھر بار اپنا
مِری ہے یہ حسرت رسولِ کریمﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
پارسائی حضورﷺ کا صدقہ
یہ کمائی حضورﷺ کا صدقہ
میرے لب پر ہیں نور کے دانے
لب کشائی حضورﷺ کا صدقہ
مجھ کو منزل کا راستہ جو ملا
یہ بھلائی حضورﷺ کا صدقہ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مِرے دل کو مدینے کی تمنا بھی وہی دیں گے
پھر اس کے بعد طیبہ کا بلاوا بھی وہی دیں گے
مجھے کیا غم وسائل کا وه حل ہیں سب مسائل کا
کہ جو ازن سفر دیں گے کرایہ بھی وہی دیں گے
بچانا جن کو آتا ہے قیامت خیز طوفاں سے
مِری غمگین کشتی کو کنارہ بھی وہی دیں گے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
زباں پہ نامِ محمدﷺ جو بار بار آئے
تو کیوں نہ گلشنِ توحید پر نکھار آئے
جو دل کی سمت نظر کی تو سامنے تھے رسولؐ
پکارنے کو تو ہم جا بجا پکار آئے
بکھر گئے افقِ جاں پہ رنگِ صبحِ ازل
عجب طرح سے مجھے مژدۂ بہار آئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حصار دین کے منظر میں آزر ہو نہیں سکتا
جہاں ظلمت کدہ ہو دل منور ہو نہیں سکتا
لقب پایا ہے سیف اللہ کا خالدؓ کی ہستی نے
شجاعت میں کوئی ان کے برابر ہو نہیں سکتا
گواہی سب سے پہلے دی شبِ معراج کی اس نے
جہاں میں دوسرا صدیق اکبرؓ ہو نہیں سکتا
ہم نے جس کے لیے پھولوں کے جہاں چھوڑے ہیں
اس نے اس دل میں فقط زخم نہاں چھوڑے ہیں
ہم نے خود اپنے اصولوں کی حفاظت کے لیے
دولتیں چھوڑ دیں شہرت کی جہاں چھوڑے ہیں
زندگی ہم نے تِرا ساتھ نبھانے کے لیے
تپتے صحرا میں بھی قدموں کے نشاں چھوڑے ہیں
دوہا
ٹھاکر گیہوں لے گیا ہاری بھوسا کھائے
کاگا رہا پکارتا انیائے، انیائے
طاہر سعید ہارون
سورج اب غم کا چھپا ہے شاید
چاند خوشیوں کا اگا ہے شاید
زندگی اوڑھ چکی تاریکی
دل کوئی ڈوب رہا ہے شاید
آنکھ اس کی بھی نظر آتی ہے نم
کانٹا اس کے بھی چبھا ہے شاید
کوئی افسانۂ زندان سناتا ہے مجھے
اور جینے کی تدابیر بتاتا ہے مجھے
ایک ہی دکھ ہے کہ دیوار سے لگ کر کوئی
روئے جاتا ہے مجھے، گھورتا جاتا ہے مجھے
ایک سایہ ہے مِرا، ڈل کے کنارے بیٹھا
اور ہر روز وہ اُس پار بُلاتا ہے مجھے
تمہارا راج تمہارا رواج کچھ بھی کرو
کہ سو رہا ہے ہمارا سماج کچھ بھی کرو
بہت بلند فصیلیں ہیں قصر شاہی کی
سنے گا کون، صدا احتجاج کچھ بھی کرو
بساط جرم کسی دن ضرور پلٹے گی
تمہارے ہاتھ میں طاقت ہے آج کچھ بھی کرو
ایک درخت کی دہشت
میں کلہاڑے سے نہیں ڈرا
نہ کبھی آرے سے
میں تو خود کلہاڑے اور آرے کے دستے سے جڑا ہوں
میں چاہتا ہوں
کوئی آنکھ میرے بدن میں اترے
میرے دل تک پہنچے
ماں کی یاد میں اک نظم
میں اکثر دیکھنے جاتا تھا اس کو جس کی ماں مرتی
اور اپنے دل میں کہتا تھا یہ کیسا شخص ہے؟
اب بھی جیے جاتا ہے
آخر کون اس کے گھر میں ہے
جس کے لیے یہ سختیاں سہتا ہے تکلیفیں اٹھاتا ہے
تھکن دن کی سمیٹے شب کو گھر جانے پہ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
رب کی عطا ہیں مصطفیٰﷺ، شاہِ اُمم شاہِ زماں
روشن ہوئے ہیں آپؐ سے کون و مکاں سے لامکاں
آپﷺ کی آمد اس جہاں میں ہے اک نعمتِ یزداں
واری گئی ساری زمین صدقے ہوئے سات آسماں
ذرہ ذرہِ کائنات مہک رہا ہے آپﷺ سے
اے نسیمِ گُل رُخاں، اے بہارِ گلستاں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یہ قلب و نظر ہے برائے مدینہ
نثارِ مدینہ،۔ فدائے مدینہ
مدینے کے دن ہوں مدینے کی راتیں
خدا دیکھیے، کب دکھائے مدینہ
وہ ذکر نبیﷺ ہو کہ ذکرِ خدا ہو
مجھے ہر طرح یاد آئے مدینہ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دونوں عالم میں فروزاں ہے اُجالا تیرا
مظہرِ نُورِ خدا ہے رُخِ زیبا تیرا
اُس کی آنکھوں میں مدینے کی جھلک دیکھتا ہوں
جب بھی آتا ہے کوئی دیکھ کے روضہ تیرا
اے براہیمی لقب ہاشمی و مُطّلبی
ساری دنیا سے معطر ہے قبیلہ تیرا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نبی تشریف لائے ہیں یہاں غفار کے صدقے
منور ہو گئے سارے جہاں سرکارؐ کے صدقے
زیارت کرنے جو آیا عبادت کرنے لگتا ہے
ہوا غارِ حِرا میں یہ عمل سرکارؐ کے صدقے
جو احکامِ الہی ہیں عجب توفیق دیتے ہیں
عمل کرتی ہے اُمت آپؐ کے کردار کے صدقے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہے بلندی کا نشاں، نعلینِ اقدس آپﷺ کی
چومتا ہے آسماں، نعلینِ اقدس آپﷺ کی
اُس زمیں کو دیکھتے ہیں رشک سے اہل فلک
رکھی جاتی ہے جہاں، نعلینِ اقدس آپﷺ کی
کیوں نہ ہم چشمِ تصور سے کریں اس کا طواف
لوحِ دل پر ہے عیاں، نعلینِ اقدس آپﷺ کی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مجھ کو مرنے میں بھی جینے کو قرینہ چاہیے
لطفِ محبوبِﷺ خدا خاکِ مدینہ چاہیے
آئینے پر دل کے ہو نورِ محمدﷺ کی جِلا
جو قیامت تک چلے ایسا سفینہ چاہیے
جلوۂ سرکارؐ تو نظروں کا مسکن ہے مگر
چشمِ بینا چاہیے،۔ ہاں چشمِ بینا چاہیے
سبز لہجہ کہاں سمجھتا ہے
وہ تو اپنی زباں سمجھتا ہے
زاویے راس آ گئے اس کو
دُھوپ کو سائباں سمجھتا ہے
راستے کُھل گئے ہیں اس پہ مگر
منزلوں کو دُھواں سمجھتا ہے
ان کا جب تیرِ نظر یاد آیا
رو دئیے زخمِ جگر یاد آیا
جب اسے میں نے بُھلانا چاہا
اور وہ رشکِ قمر یاد آیا
کیا کہوں وحشتِ زندانِ فراق
کبھی صحرا، کبھی گھر یاد آیا
اپنی اوقات تُو دِکھائے گا
کر کے سازش مجھے گِرائے گا
تجھ سے بس زہر کی توقع ہے
ناگ تریاق کیا پِلائے گا
دین اس کی ہے عزت و ذِلت
تُو مِرا کیا بگاڑ پائے گا
ہم فقیروں کی جیب خالی ہے
یاد لیکن تِری بچا لی ہے
آسماں سے کوئی خیال اترے
ذوق یا رب مِرا سوالی ہے
راز پنہاں تھے سب خزاؤں کے
خشک پتوں نے بات اچھالی ہے
کتنا کمزور ہے ایمان پتا لگتا ہے
گھر میں آیا ہوا مہمان بُرا لگتا ہے
میں نے ہونٹوں پہ تبسّم تو سجا رکھا ہے
غم بُھلانے میں مگر وقت بڑا لگتا ہے
آپ بے کار مجھے شجرہ دِکھانے آئے
آپ جو بھی ہیں وہ لہجے سے پتا لگتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
پھر ہمیں دارِ فضیلت میں بُلائیں، سلطاں
پھرسے دل چاہنے والوں کےجِلائیں، سلطاں
آرزوئے دلِ مضطر ہے فقط اتنی سی
آپؐ کی دید کی کرتے ہیں دعائیں، سلطاں
دوریوں سے تِرے عشّاق رہیں افسردہ
جُز غمِ ہجر، نہ کچھ قلب میں پائیں، سلطاں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اے لوگو محمدﷺ سے وفا کیوں نہیں کرتے
احکام شریعت کے ادا کیوں نہیں کرتے
جنت کی تمنا ہے اگر دل میں تمہارے
تم راہ ہدایت پہ چلا کیوں نہیں کرتے
یہ روح بھی زخمی ہے اور جسم بھی زخمی
قران سے زخموں کی دوا کیوں نہیں کرتے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
رسولِ پاکﷺ کی آمد کی آہٹ دور سے آئی
پھر ان کے نور کی بھی جگمگاہٹ دور سے آئی
ملے ایمان، قرآں اور حدیثِ پاک کے تحفے
ہمارے ملک میں اک مسکراہٹ دور سے آئی
ضیا سرکارؐ کے قدموں کی ہم نے یوں بھی پائی ہے
ستاروں کی زمیں پہ جھلملاہٹ دور سے آئی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وفورِ شوق کی محفل ہے میری تنہائی
"بڑے وقار کی حامل ہے میری تنہائی"
مدینہ جب بھی نظر آئے، آئے خلوت میں
مِری ضمانتِ منزِل ہے میری تنہائی
حضورؐ! آپ کو سوچوں جو پہروں خلوت میں
تو زندگی کا مِری دل ہے میری تنہائی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دل مبتلائے رنج ہے ممکن ہے یوں علاج
کر دیجیے عطا مجھے خاک مدینہ آج
چبھنے لگے ہیں مجھ کو یہ دنیا کے تخت و تاج
جب سے ہوا ہے دل پہ میرے مصطفیٰؐ کا راج
میرا امام صاحبِ کوثر ہی ہے فقط
محشر میں اے خدا مِری رکھ لیجیے گا لاج
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تا ابد ممکن نہیں تنویرِ فاراں کا جواب
پرتَوِ روئے نبیﷺ سے آئینے ہیں آب آب
مل نہیں سکتا قیامت تک کہیں اُس کا جواب
جس نے پتھریلی زمینوں پر اُگائے ہیں گلاب
مصطفیٰ یا مصطفیٰ یا مصطفیٰ یا مصطفیٰﷺ
بس یہی میرا سبق ہے بس یہی میرا نصاب
عشق آفات کی جو زد میں ہے
جانے کس کی نگاہِ بد میں ہے
میرے جیسا کوئی حسین نہیں
مُبتلا شہر کیوں حسد میں ہے
تم نے دیکھا ہے کرب کا چہرہ
جو نہاں میرے خال و خد میں ہے
لبوں پر آ سکے کوئی دُعا کیا
بچا ہے تلخ یادوں کے سوا کیا
خُدا سے دشمنی رکھتے ہو جب تم
بچائیں کشتیوں کو نا خُدا کیا
تِرے دیوانے بھی کچھ کہہ رہے ہیں
ذرا سُن تو ہے ان کا مُدعا کیا
خوشی کے ساتھ اُٹھے سر خوشی کے ساتھ چلے
یہ ہم بھی کیا ہیں جو آیا اسی کے کے ساتھ چلے
تمام عمر نہ بدلا تِرے مزاج کا رنگ
تمام عمر تِری بے رُخی کے ساتھ چلے
عجب نہیں کہ چلے ہم سراب کی جانب
عجب تو یہ ہے کہ دریا دلی کے ساتھ چلے
میرے مولا یہ کس کی چاہت ہے
اور چاہت بھی کیا مصیبت ہے
خودکشی کے کئی طریقے ہیں
سب سے پہلا مگر محبت ہے
گر بچھڑنا ہے تو اجازت کیا
ہاتھ چھوڑو، تمہیں اجازت ہے
دیوار و در کا نام تھا کوئی مکاں نہ تھا
میں جس زمین پر تھا وہاں آسماں نہ تھا
میں دشمنوں کی طرح رہا خود سے دور کیوں
اپنے سوا تو کوئی مِرے درمیاں نہ تھا
قدموں میں تپتی ریت تھی چاروں طرف تھی آگ
اور زندگی کے سر پر کوئی سائباں نہ تھا
روداد غم انہیں کو سنانے میں رہ گئے
جو لوگ با وقار زمانے میں رہ گئے
آتے میں رہ گئے، کبھی جاتے میں رہ گئے
اچھا سا کوئی شعر سنانے میں رہ گئے
جانا تھا جس کو پار وہ آخر چلے گئے
کچھ لوگ صرف اشک بہانے میں رہ گئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ازل سے پہلے ابد کے بعد کچھ نہیں تیرے سوا
حرفِ اول حرفِ آخر کوئی نہیں تیرے سوا
شعورِ خُدائے وَحدَہُ لاَ شرِیکَ لَہُ
کون کرے مجھ کو عطا بس تیرے سوا
نُور ہی بس نُور تیرا چار سُو اے خُدا
کون جلائے چراغ دل میں تیرے سوا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نعت نبیؐ کی بزم میں خوشبو بکھیر کر
باطل توجّہات کو پل بھر میں زیر کر
ناموسِ مصطفیٰؐ پہ جو آئے ذرا بھی آنچ
جان و جہاں لٹانے میں بالکل نہ دیر کر
کاغذ پہ میں نے احمدِؐ مرسل جہاں لکھا
ہالہ بنا دیا ہے فرشتوں نے گھیر کر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جب کسی طور نہ دارین کا صدقہ اُترے
کِس طرح پھر شہِ کونینؐ کا صدقہ اُترے
ان گِنت جنتیں بٹ جائیں گنہگاروں میں
اُنؐ کے ماں باپ کریمین کا صدقہ اُترے
اِک اُچٹتی سی نظر ڈال دیں سرکارؐ اگر
کعبتہ اللہ کے طرفین کا صدقہ اُترے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
گھوم آیا اگرچہ ہے سب افلاک تصور
چومے ہے مدینے کی مگر خاک تصور
جس پر کروں نقش آپؐ کے نعلینِ مقدس
لاؤں میں کہاں سے بھلا وہ پاک تصور
پہنچو جو مدینے میں تو رہنا ہے مؤدب
اس شہر میں ہونا نہیں بے باک تصور
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا
کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا
پاون تلے بچھایا کیا خوب فرشِ خاکی
اور سر پہ لاجوردی اِک سائباں بنایا
مٹی سے بیل بوٹے کیا خوشنما اگائے
پہنا کے سبز خلعت ان کو جواں بنایا
تیری آواز آتی رہتی ہے
زندگی مُسکراتی رہتی ہے
آنکھ بنجر تو ہو چکی ہے مگر
نم مُسلسل بناتی رہتی ہے
پارسائی کا زعم بڑھنے پر
آدمیت بھی جاتی رہتی ہے
اس کو پانا کبھی آسان کہاں ہوتا ہے
عشق میں وصل کا امکان کہاں ہوتا ہے
دل سے نکلوں بھی تو اُس ذہن میں آ جاتا ہوں
یعنی نفرت کا بھی نقصان کہاں ہوتا ہے
شکر ہے اس کی نظر ہم کو میسر ہے میاں
ورنہ ہر درد کا درمان کہاں ہوتا ہے
جو چاہتوں کی راہ میں مصلوب ہو گئے
وہ رب کائنات میں مصلوب ہو گئے
منزل کی سمت ہم چلے اتنے یقین سے
منزل کو اپنے آپ ہی مطلوب ہو گئے
اے حُسن! تیری بندہ پروری کا شکریہ
ہم تم سے مل کے صاحب اسلوب ہو گئے
خود ہمیں مرغوب تھی جب رسمِ رُسوائی بہت
دیر تک ہنستے رہے ہم پر تماشائی بہت
جانے ساحل کی ہوا نے ریت پر کیا لکھ دیا
بادلوں کی آنکھ بھی اس بار بھر آئی بہت
سارا دن اس کو بُھلانے کی تگ و دو میں کٹا
شام کے سائے ڈھلے تو اس کی یاد آئی بہت
ہمارے دُکھ پرانے ہو گئے ہیں
اُسے بُھولے زمانے ہو گئے ہیں
طلب میری زیادہ تو نہیں ہے
تِرے خالی خزانے ہو گئے ہیں
ہزاروں تِیر اندازوں سے بچتے
نگاہوں کے نشانے ہو گئے ہیں
کُوزے میں خواہ لائے کوئی بحر و بر کی بات
سُنتا یہاں پہ کون ہے آشفتہ سر کی بات
دل کی، زباں پہ آئی تو محسوس یُوں ہُوا
بازار میں ہو آ گئی جس طرح گھر کی بات
بہکا نہ پائے گا ہمیں لفظوں کا ہیر پھیر
پڑھنے لگی ہے اب تو نظر ہی نظر کی بات
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اپنی عظمت یُوں زمانے کو دکھا دیتے ہیں آپﷺ
لوگ پتھر مارتے ہیں اور دُعا دیتے ہیں آپﷺ
دِین کی تبلیغ کا انداز ہے کیا مُنفرد
لوگ کُوڑا پھینکتے ہیں مُسکرا دیتے ہیں آپﷺ
بند مُٹھی سے صدائے لا الہ آنے لگی
پتھروں کو کلمۂ وحدت پڑھا دیتے ہیں آپﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مجھ کو آقاﷺ نے مدینے میں بلایا ہی نہ تھا
نعت کہنے کا سلیقہ مجھے آیا ہی نہ تھا
روشنی نور کے اندر سے گزر جاتی تھی
بس اسی واسطے سرکارؐ کا سایہ ہی نہ تھا
اک ندامت کی امانت تھا ازل سے آنسو
جُز تِرے در کے کہیں اور بہایا ہی نہ تھا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وائے تقدیر تاج عظمت کونین رکھ دینا
مِرے سر پر مِرے سرکارؐ کے نعلین رکھ دینا
الٰہی دیکھ لوں میں بھی تو اب روئے محمدﷺ کو
مِری آنکھیں ذرا قوسین کے مابین رکھ دینا
کہا اللہ نے قوسین کب حد ہے محمدﷺ کی
جہاں یہ آپؐ رک جائیں وہیں قوسین رکھ دینا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دیکھیں گے انبیاء بھی نظریں اٹھا اٹھا کے
محشر میں جب محمدﷺ آئیں گے مسکرا کے
چاہیں گے جو محمدﷺ وہ ہی خداﷻ کرے گا
سب اختیار محشر اُنﷺ کو عطا کرے گا
بخشے گی انؐ کی رحمت مجرم بلا بلا کے
اک طرف عاصیوں کو وہ بخشوا رہے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
شاہوں کے بھی سرتاج غلامانِ محمدﷺ
یاران محمدﷺ تو ہیں، یارانِ محمدﷺ
تابندہ عقیدہ دیا، تہذیب عطا کی
تاریخ نہ بھولے گی یہ احسانِ محمدﷺ
محدود نہیں یہ مہ و سال و صدی میں
ہر درد کی آواز ہے اعلانِ محمدﷺ
دل جب خالی ہو جاتا ہے
اور بھی بھاری ہو جاتا ہے
جب تو ساقی ہو جاتا ہے
عشق شرابی ہو جاتا ہے
میں جب تک کچھ طے کرتا ہوں
سب کچھ ماضی ہو جاتا ہے
نورِ صبحِ تاباں کو
دیر ہے چمکنے میں
شب کی اس طوالت کو
اک خیال کے ہمراہ
دُور لے کے چلتے ہیں
آؤ راہِ ماضی پر
آپ غالب پرست چپ ہی رہیں
میر اور میری ہائے ہائے پر
اپنا لہجہ درست رکھیے گا
کون آئے گا پھیکی چائے پر
اب اسی کو وصال سمجھیں آپ
سایہ پڑتا رہے گا سائے پر
جب تلک آنکھ کو لگایا نہیں
وہ مِرے خواب تک میں آیا نہیں
اس لیے ٹھیک دیکھ سکتا ہوں
آنکھ کو بے سبب بہایا نہیں
کُھلی آنکھوں سے خواب دیکھتا ہوں
نیند کو میں نے آزمایا نہیں
گل حسنا
ملک صاحب کے گھر سے
اس کو فرصت تو نہ ملتی تھی
مگر پھر بھی
وہ جانے کتنی دو پہروں
کئی مصروف شاموں سے
چُرایا وقت لے کر آ نکلتا تھا
تبصرہ
بے نوا موسموں میں
پرندے زمیں پر اترتے نہیں
صحن میں آ بھی جائیں
تو نزدیک آتے نہیں
دلکشا وادیوں کوہساروں سے
نغموں کی سوغات لاتے نہیں
چشمِ پُر نم ابھی مرہونِ اثر ہو نہ سکی
زندگی خاک نشینوں کی بسر ہو نہ سکی
مےکدے کی وہی مانوس فضا اور دلِ زار
ایک بھی رات با اندازِ دِگر ہو نہ سکی
غمِ جاناں، غمِ دوراں کی گزرگاہوں سے
گزرے کچھ ایسے کہ خود اپنی خبر ہو نہ سکی
رہ جائیں فلک والے شورش سے نہ بیگانہ
ناہید کر تڑپا دے اے نعرۂ مستانہ
کچھ اور بھی جلوے ہیں کچھ اور بلاوے ہیں
لے تیرا خدا حافظ اے جلوۂ جانانہ
میخانے کی حرمت کا کچھ پاس بھی ہے لازم
لغزش میں قرینے سے اے لغزشِ مستانہ
نفرت کی آگ لگائے ہوئے ہیں لوگ
مہرو وفا کا درس بُھلا ئے ہوئے ہیں لوگ
مشکل ہے گلستاں میں گزر عندلیب کا
ہراک قدم پہ دام بچھا ئے ہوئے ہیں لوگ
اس شہر بے اماں میں تو جینا محال ہے
مقتل گلی گلی میں سجا ئے ہوئے ہیں لوگ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دنیا ہے ایک دشت تو گلزار آپﷺ ہیں
اس تیرگی میں مطلعِ انوار آپﷺ ہیں
یہ بھی سچ کہ آپﷺ کی گفتار ہے جمیل
یہ بھی ہے حق کہ صاحبِ کردار آپ ہیں
ہو لاکھ آفتابِ قیامت کی دھوپ تیز
میرے لیے تو سایہِ دیوار آپﷺ ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یا محمدﷺ ایسی عزت آپؐ نے پائی کہ بس
کی شبِ معراج رب نے وہ پذیرائی کہ بس
ایک پل میں مصطفیٰﷺ کو عرش پر بُلوا لیا
اپنے بندے کی خدا کو ایسی یاد آئی کہ بس
گنتے گنتے تھک گئیں تاروں کی ناز انگلیاں
مصطفیٰﷺ کے ہیں زمیں پر اتنے شیدائی کہ بس
یہ اپنی مرضی سے سوچتا ہے، اسے اُٹھا لو
اُٹھانے والوں سے کچھ جُدا ہے، اسے اٹھا لو
وہ بے ادب اس سے پہلے جن کو اُٹھا لیا تھا
یہ ان کے بارے میں پُوچھتا ہے، اسے اٹھا لو
اسے بتایا بھی تھا کہ کیا بولنا ہے کیا نئیں
مگر یہ اپنی ہی بولتا ہے، اسے اٹھا لو
ساری آوازیں دبا دو سارے بندے مار دو
آپ کی مرضی ہے آقا جتنے بندے مار دو
پہلے ہی کڑواہٹوں کی زد میں ہے میری زمیں
اور تم اوپر سے میرے مِیٹھے بندے مار دو
اب تو اپنے جُھوٹ سے نظریں ہٹانے کے لیے
ایک ہی رستہ بچا ہے؛ سچے بندے مار دو
دل کی حالت سنبھل گئی ہے اب
یاد آگے نکل گئی ہے اب
کل تو شامل تھا میری قسمت میں
میری قسمت بدل گئی ہے اب
وہ میرا حال تم سے پوچھے گا
اُس سے کہنا سنبھل گئی ہے اب
اس نے آباد کیا شہرِ وفا دل کی طرح
آئی گرتے ہوئے اک گھر سے صدا دل کی طرح
خُون چُھپتا سا چلا جاتا ہے افلاک تا خاک
خارزاروں سے گُزرتی ہے صبا دل کی طرح
کس طرح گیند چلی جاتی ہے گھر سے باہر
کھلکھلاتے ہوئے بچوں نے کہا دل کی طرح
حیات ڈھونڈ رہا ہوں قضا کی راہوں میں
پناہ مانگنے آیا ہوں بے پناہوں میں
بدن ممی تھا نظر برف سانس کافوری
تمام رات گُزاری ہے سرد بانہوں میں
اب ان میں شعلے جہنم کے رقص کرتے ہیں
بسے تھے کتنے ہی فردوس جن نگاہوں میں
سپرد آہ نہ کرتے تو اور کیا کرتے
یہ دل تباہ نہ کرتے تو اور کیا کرتے
غموں سے شغل رفاقت تو خیر مشکل تھا
مگر نباہ نہ کرتے تو اور کیا کرتے
طلسم جنت آدم تھا رات کا منظر
جو ہم گناہ نہ کرتے تو اور کیا کرتے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
رُوئے بدر الدجیٰ دیکھتے رہ گئے
چہرۂ والضحٰے دیکھتے رہ گئے
حُسنِ خیر الوریٰ میں خُدا کی قسم
ہم جمالِ خُدا دیکھتے رہ گئے
چاند دو ٹکڑے ہو کر تصدق ہوا
دُشمنِ مُصطفیٰؐ دیکھتے رہ گئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جہاں بھی جاؤں اپنا ہو کے بے گانہ محمدؐ کا
مجھے سب زیر لب کہتے ہیں دیوانہ محمدؐ کا
ارے بے عقل بن جا ایسا فرزانہ محمدؐ کا
کہیں سب ہوش والے تجھ کو دیوانہ محمدؐ کا
محمدﷺ کی حقیقت بس علیؑ خدا جانے
زبانِ خلق پر جاری ہے افسانہ محمدؐ کا
یہ مِرا جُرم ہے اور اس کی سزا گولی ہے
دورِِ ظُلمت میں چراغوں کی دُکاں کھولی ہے
اس کو کہتے ہیں میاں ہاتھ کا خالی ہونا
نہ کوئی دُکھ ہے مِرے پاس نہ ہمجولی ہے
کون آباد کرے آ کے یہاں بستی کو؟
دشت زادوں نے یہاں خاک بہت رولی ہے
جو بیل میرے قد سے ہے اوپر لگی ہوئی
افسوس ہر بساط سے باہر لگی ہوئی
اس کی تپش نے اور بھی سلگا رکھا ہے کچھ
جو آگ ہے مکان سے باہر لگی ہوئی
سنتے ہیں اس نے ڈھونڈ لیا اور کوئی گھر
اب تک جو آنکھ تھی تِرے در پر لگی ہوئی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دل میں اترتے حرف سے مجھ کو ملا پتا تِرا
معجزہ حسنِ صوت کا، زمزمۂ صدا ترا
میرا کمال فن، تِرے حسن کلام کا غلام
بات تھی جانفزا تِری، لہجہ تھا دلربا ترا
جاں تِری سر بہ سر جمال! دل تِرا، آئینہ مثال
تجھ کو تِرے عدُو نے بھی دیکھا تو ہو گیا ترا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہمہ والعصر اور والدّھر ہے عظمت محمدؐ کی
ابد لمحہ محمدﷺ کا ازل ساعت محمدؐ کی
جمالِ رحمتہَ للعالمیں رحمت محمدﷺ کی
سرا سر سورۂ رحمان ہے صورت محمدؐ کی
الف اور لام میم آیا ہے توصیفِ محمدؐ میں
خمِ زلفِ نبی لام اور الف قامت محمدؐ کی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بیان ہو نہیں سکتیں عنایتیں اس کی
تمام فاصلے میرے ہیں قربتیں اس کی
نماز کیوں نہ ہو معراج آدمی کے لیے
سمیٹ لیتے ہیں سجدے مساففتیں اس کی
نبیؐ و آلِ نبیؑ سے ہے اتنا پیار اسے
درودِ پاک میں رہتی ہیں شرکتیں اس کی
اِن ڈور پلانٹ
مجھے سب نے بتایا ہے
کہ میں اِن ڈور پودا ہوں
دمکتے سبز پتے زرد پڑ کر سُوکھ جاتے ہیں
سُنا ہے روشنی بھی لازمی عنصر ہے جینے کا
اندھیرے کا تسلسل زندگی کو چاٹ جاتا ہے
مجھے بھی زندہ رہنے کو ضیاء درکار ہے سائیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یا نبیﷺ کس قدر آبلے ہیں تیرے ہر ایک نقشِ قدم میں
تُو نے دنیا بدل دی ہماری صرف ترسٹھ برس رہ کے ہم میں
اب بھی باقی ہے بستر کی گرمی اب بھی زنجیرِ در ہل رہی ہے
تھی کروڑوں برس کی مسافت طے ہوئی ایک پل سے بھی کم میں
روشنی ان کے قدموں سے لے کر طاق راتوں میں ڈھونڈا جو میں نے
مل گئی قدر کی رات مجھ کو میرے آقاﷺ کی زلفوں کے خم میں
دنیا میں تِری درد کا درمان نہیں ہے
ہر سمت خُدا ہیں، کوئی انسان نہیں ہے
طاقت کے نشے میں جو لہو سچ کا بہائے
ظالم ہے، لُٹیرا ہے، وہ سُلطان نہیں ہے
یہ بات غلط ہے کہ میں باطل کو نہ جانوں
یہ سچ ہے مجھے اپنا ہی عرفان نہیں ہے
قاری، تم کون ہو
جو اب سے سو سال بعد میری نظمیں پڑھ رہے ہو؟
میں تمہیں بہار کی اس دولت سے ایک بھی پھول
اس بادل سے ایک بھی سنہری کرن نہیں بھیج سکتا
اپنے دروازے کھولو اور باہر دیکھو
اپنے پروان چڑھتے ہوئے باغ سے
سو سال قبل مٹ گئے پھولوں کی معطر یادیں جمع کرو
جسم و جاں کس غم کا گہوارہ بنے
آگ سے نکلے تو انگارہ بنے
شام کی بھیگی ہوئی پلکوں میں پھر
کوئی آنسو آئے اور تارا بنے
لوح دل پہ نقش اب کوئی نہیں
وقت ہے آ جاؤ شہ پارا بنے
وہ شخص کون تھا مڑ مڑ کے دیکھتا تھا مجھے
اکیلا بیٹھ کے پہروں جو سوچتا تھا مجھے
میں اس کے پاس سے گزرا تو یہ ہوا محسوس
وہ دھوپ سر پہ لیے چھاؤں دے رہا تھا مجھے
الٹ رہا تھا مِری زندگی کے وہ اوراق
کسی کتاب کی مانند پڑھ رہا تھا مجھے
روایتوں کا بہت احترام کرتے ہیں
کہ ہم بزرگوں کو جھک کر سلام کرتے ہیں
ہر ایک شخص یہ کہتا ہے اور کچھ کہیے
ہم اپنی بات کا جب اختتام کرتے ہیں
کبھی جلاتے نہیں ہم تو برہمی کا چراغ
وہ دشمنی کی روش روز عام کرتے ہیں
ٹپکتے شعلوں کی برسات میں نہاؤں گا
اب آ گیا ہوں تو اس شہر سے نہ جاؤں گا
کشش ہے گھر میں نہ باہر کی رونقیں باقی
یونہی رہا تو کہاں جا کے مسکراؤں گا
یہ گیلی گیلی سی خوشبو یہ نرم نرم نگاہ
تمہارے پاس رہا میں تو بھیگ جاؤں گا
ہمیں دریافت کرنے سے ہمیں تسخیر کرنے تک
بہت ہیں مرحلے باقی ہمیں زنجیر کرنے تک
ہمارے ہجر کے قصے سمیٹو گے تو لکهو گے
ہزاروں بار سوچو گے ہمیں تحریر کرنے تک
ہمارا دل ہے پیمانہ، سو پیمانہ تو چهلکے گا
چلو دو گهونٹ تم بهر لو ہمیں تاثیر کرنے تک
عید کا چاند دیکھ کر
صبح خیرات کے آنگن میں غریبی ہو گی
پھر وہی صدقۂ جاں اب کے برس پائیں گے
اور ہر دست مخیر میں چمکتے سکے
ملگجے جسموں کی حالت پہ ترس کھائیں گے
غم کے تپتے ہوئے صحرا پہ خوشی کے بادل
بے ارادہ ہی سر راہ برس جائیں گے
شہانِ کربلا
گھڑی بھر کے لیے مر کر ابد تک جینے آتے ہیں
مجاہد جب کبھی جامِ شہادت پینے آتے ہیں
دکھانے قاتلوں کو ان کے چہرے پیغمبر
لیے ہاتھوں میں اپنے خون کے آئینے آتے ہیں
اک ایسے اوج پر مینار ہے شوقِ شہادت کا
جہاں قربانیوں کے زینے آتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سوا اس کے نہ کوئی لفظ نا کوئی صدا نِکلے
زبان و دل سے بس صلے علٰی صلے علٰی نکلے
حیاتِ طائرِ خوش بخت ہر دم بوسہ گیری کو
عقیدت سے مزیّن ڈُھونڈنے نعلینِ پا نکلے
بتاؤں کیا فضیلت ارضِ طیبہ کی تمہیں اس سے
شفا نکلے، دوا نکلے، خزانے بے بہا نکلے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مجھ کو تو اپنی جاں سے بھی پیارا ہے ان کا نام
شب ہے اگر حیات ، ستارا ہے ان کا نام
تنہائی کس طرح مجھے محصور کر سکے
جب میرے دل میں انجمن آرا ہے ان کا نام
ہر شخص کے دکھوں کا مداوا ہے ان کی ذات
سب پا شکستگاں کا سہارا ہے ان کا نام
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جو آنکھوں سے لگائی جائے گی مٹی مدینے کی
تو جلوے عرش کے دکھلائے گی مٹی مدینے کی
مدینے کی زمیں پر صاحب معراج آتے ہیں
یہی سے آسماں کہلائے گی مٹی مدینے کی
یہ ہے شہر مدینہ یاں ادب سے سر کے بل چلیے
نہیں تو پاؤں میں آ جائے گی مٹی مدینے کی
یہاں کیا کام ہاتھوں کا یہاں کیا ذکر دامن کا
کہ پلکوں سے اٹھائی جائے گی مٹی مدینے کی
وہاں کیا آ سکے گی ایسی سرسبزی وہ شادابی
بھلا جنت کہاں سے لائے گی مٹی مدینے کی
جدا ہوتی نہیں ابنِ علیؑ کے پائے اطہر سے
زمینِ کربلا تک جائے گی مٹی مدینے کی
وہ انساں جو نہ حاصل کر سکے عرفاں محمدؐ کا
اسے ہرگز نہیں اپنائے گی مٹی مدینے کی
بھلا مجھ کو زمینِ ہند کب تک روک سکتی ہے
سروش اک دن مدینے جائے گی مٹی مدینے کی
آغا سروش حیدرآبادی
غالب کا رنگ میر کا لہجہ مجھے بھی دے
لفظوں سے کھیلنے کا سلیقہ مجھے بھی دے
تیری نوازشیں ہیں ہر اک خاص و عام پر
دریا ہے تیرا نام تو قطرہ مجھے بھی دے
سجدوں کو میرے پھر تِری چوکھٹ نصیب ہو
منزل تلک پہنچنے کا رستہ مجھے بھی دے
شاخسانہ
آہ بصورتِ عشق یہ گدازیاں
کبھی خود کی خود پہ جھیل تُو
کبھی عقد کر تو سرور سے
کبھی کھول نشے کی نکیل تُو
کبھی علم ہو تجھے بے خودی
کبھی خرد کو کر فیل تُو
ہنس ہنس کے بولنے کی فضا کون لے گیا
آنگن سے شور و غل کی صدا کون لے گیا
پینے لگی ہیں زہر تفکر شرارتیں
بچوں سے بھولے پن کی ادا کون لے گیا
سچ بولنے کی ساری روایت کہاں گئی
ورثے میں جو ملی تھی فضا کون لے گیا
رات ڈھلتے ہی سفیرانِ قمر آتے ہیں
دل کے آئینے میں سو عکس اُتر آتے ہیں
سیل مہتاب سے جب نقش اُبھر آتے ہیں
اوس گِرتی ہے تو پیغام شرر آتے ہیں
ساعت دید کا گُلزار ہو یا سایۂ دار
ایسے کتنے ہی مقاماتِ سفر آتے ہیں
پتھروں کے درمیاں بہتی ندی اچھی لگی
جب حصار غم میں گزری زندگی اچھی لگی
ایک پتھر پھینکنے پر گاؤں کے تالاب میں
پُر سکوں موجوں کی اکثر برہمی اچھی لگی
شب کی تنہائی میں دروازے پہ دستک دفعتاً
گُھپ اندھیرے میں اچانک روشنی اچھی لگی
باغِ دل میں کوئی غنچہ نہ کِھلا تیرے بعد
بھول کر آئی نہ اس سمت صبا تیرے بعد
تیری زلفوں کی مہک تیرے بدن کی خوشبو
ڈھونڈتی پھرتی ہے اک پگلی ہوا تیرے بعد
وہی میلے وہی پنگھٹ وہی جھولے وہی گیت
گاؤں میں پر کوئی تجھ سا نہ ملا تیرے بعد
تھک کے بیٹھا تھا کہ منزل نظر آئی مجھ کو
حوصلہ دینے لگی آبلہ پائی مجھ کو
نذر کر دیتے ہیں وہ اپنی کمائی مجھ کو
سر اٹھانے نہیں دیتے مِرے بھائی مجھ کو
میں جہاں جاتا ہوں اس پیکر نوری کے سوا
اور کچھ بھی نہیں دیتا ہے دکھائی مجھ کو
حقیقت سامنے تھی اور حقیقت سے میں غافل تھا
مِرا دل تیرا جلوہ تھا، تِرا جلوہ مِرا دل تھا
ہوا نظارہ لیکن یوں کہ نظارہ بھی مشکل تھا
جہاں تک کام کرتی تھیں نگاہیں طور حائل تھا
رہا جان تمنا بن کے جب تک جان مشکل تھا
نہ تھی مشکل تو اس کے بعد پھر کچھ بھی نہ تھا دل تھا
اِس شان سے وہ آج پئے امتحاں چلے
فتنوں نے پاؤں چُوم کے پوچھا، کہاں چلے
کیا پوچھتے ہو ہجر کے مارے کہاں چلے
آتے نہیں پلٹ کے جہاں سے وہاں چلے
کس صید پہ لیے ہوئے تیر و کماں چلے
میں تو یہاں ہوں سینہ سپر، تم کہاں چلے
لوگ جو صاحبِ کِردار ہُوا کرتے تھے
بس وہی قابلِ دستار ہوا کرتے تھے
یہ الگ بات وہ تھا دورِ جہالت، لیکن
لوگ ان پڑھ بھی سمجھدار ہوا کرتے تھے
سامنے آ کے نبھاتے تھے عداوت اپنی
پیٹھ پیچھے سے کہاں وار ہوا کرتے تھے
نادان
سُن ارے نادان
او انجان سُن
اپنے کندھوں پر اُٹھا اپنا وزن
او گداگر
اپنے در پر دے صدا اک روز تُو
پُر اثر، پُر سوز تُو
ترکِ اُلفت میں ہے آرام بہت
گُل رخو! ہو چکے بدنام بہت
ہم ہی نادان تھے جرأت نہ ہوئی
کوئی آیا تو لبِ بام بہت
ہو مقدر تو قدم چُومے گی
سمتِ منزل تو ہیں دو گام بہت
زہر پیے مدہوش اندھیری رات
ناگن سی خاموش اندھیری رات
دن کی صورت مجھ کو بھی کھا جا آ کر
میں بھی ہوں بے ہوش اندھیری رات
شہروں میں خاموشی ہی خاموشی تھی
طوفاں تھا پُر جوش اندھیری رات
اور
تمہیں میں اور سمجھا تھا
تمہیں دل میں بسایا تھا
تمہاری بات مانی تھی
تمہیں سینے لگایا تھا
تمہارے درد پالے تھے
مگر تم کو ہنسایا تھا
دنیا نے کسوٹی پر تا عمر کسا پانی
بنواس سے لَوٹا تو شعلوں پہ چلا پانی
ہر لفظ کا معنی سے رشتہ ہے بہت گہرا
ہم نے تو لکھا بادل اور اس نے پڑھا پانی
جنت تھی مگر ہم کو جھک کر نہ اٹھانی تھی
شانے پہ رہا چہرہ، چہرے پہ رہا پانی
اپنا اپنا رنگ
تُو ہے اک تانبے کا تھال
جو سُورج کی گرمی میں سارا سال تپے
کوئی ہلکا نیلا بادل جب اس پر بُوندیں برسائے
ایک چھناکا ہو اور بوندیں بادل کو اُڑ جائیں
تانبا جلتا رہے
وہ ہے اک بجلی کا تار
وہ شخص جو زخموں کی رِدا دے کے گیا ہے
اس شہر میں جینے کی سزا دے کے گیا ہے
صدیوں سے میں سناٹوں کی بستی میں کھڑا ہوں
یہ کون مجھے سنگِ صدا دے کے گیا ہے
آیا تھا کوئی لے کے اُجالوں کا صحیفہ
بے نُور چراغوں کو ضیا دے کے گیا ہے
یار مجھ کو سمجھ گیا ہے اب
بولتے وقت سوچتا ہے اب
روز کا آنا جانا رہتا ہے
ڈاکٹر دوست بن گیا ہے اب
پھول اب اس کے بس سے باہر ہیں
سو وہ کلیوں کو توڑتا ہے اب
میرے دامن پہ عجب داغ لگا کر سائیاں
وہ مجھے چھوڑ گیا اپنا بنا کر سائیاں
میں عبادت کے عوض اس کو فقط مانگتا ہوں
یوں مزاروں پہ چراغوں کو جلا کر سائیاں
ہر ملاقات مجھے زخم نیا دیتی ہے
اور میں خوش ہوں انہی زخموں کو سجا کر سائیاں
پرِند چھت پہ بلاتے ہیں بَین کرتے ہیں
مِری بیاض دِکھاتے ہیں بین کرتے ہیں
انہیں پتہ ہی نہیں بند کھڑکیوں کی سِِسک
یہ لوگ رو نہیں پاتے ہیں، بین کرتے ہیں
بہار دیکھنے جاتا ہوں باغ میں تو شجر
پرانے زخم گِناتے ہیں، بین کرتے ہیں
اول تو یہ تمنا ہے پیار ہی نہ ہو
ہو جائے تو خدایا اظہار ہی نہ ہو
محفوظ رہ محبت کو جو اگر ملے
کوئی زمانے سے پھر بیزار ہی نہ ہو
تو مائل محبت ہے مجھ کو بھی ہے چاہ
کیا ہو سماج کا یہ معیار ہی نہ ہو
عجیب دُکھ
یہ کیسا دُکھ ہے جو میرے پیچھے
نجانے کتنے دنوں سے یونہی لگا ہُوا ہے
میں پوچھتا ہوں یہ کیسا دُکھ ہے؟
یہ کیسا دُکھ ہے جو مجھ کو اندر سے کھا رہا ہے
یہ رائیگانی کا دُکھ ہے مجھ کو
یا پھر الگ ہی معاملہ ہے
Solitude سولیٹیوڈ
عجیب شب ہے
میں اپنے پہلو میں اپنی چپ کو سمیٹے
بارش کی نرم آواز سن رہی ہوں
عجیب چپ ہے
کہ جیسے بارش کی نرم آواز ہی بہت ہے
کہ جیسے اب تک کی زندگی میں جو کہہ لیا ہے
یعنی کہ ایک فوبیا ایجاد ہو گیا
سلفی کا جب سے سلسلہ ایجاد ہو گیا
ملنے کی ساری چاہتیں بھی ختم ہو گئیں
پھر یوں ہوا کہ کیمرہ ایجاد ہو گیا
جدت جدید دور کی سب کچھ ہے کھا گئی
اب روز کچھ نا کچھ نیا ایجاد ہو گیا
فلمی گیت
او ساتھی رے تیرے بِنا بھی کیا جینا
تیرے بنا بھی کیا جینا
پھولوں میں کلیوں میں سپنوں کی گلیوں میں
تیرے بنا کچھ کہیں نہ
تیرے بنا بھی کیا جینا
ہر دھڑکن میں پیاس ہے تیری
فدائے من، فدائے من کی گونج ہے پکار میں
کہ انقلاب ہے نہاں مرے لہو کی دھار میں
چراغ جل اٹھے ہیں سب، ابھی کٹی ورید شب
یہ قوم تھک چکی ہے اب، سحر کے انتظار میں
اے بلبلِ سخن سرا، چمن کو چھوڑ ادھر کو آ
کہ سرخیاں ہی سرخیاں ہیں دشت کارزار میں
نیا عہد نامہ
قسم ہے ہمیں اپنے تازہ لہو کی
قسم زندگی کی، قسم آبرو کی
گھر اپنا کسی کو جلانے نہ دیں گے
وطن پر کبھی آنچ آنے نہ دیں گے
سدا ہم رہیں گے وطن کے نگہباں
وطن اپنا کعبہ، وطن اپنا ایماں
کسی نے کتابیں لکھنی چھوڑ دیں دوست
سو ہم نے کہانیاں ہی پڑھنی چھوڑ دیں دوست
آپ کے لیے تو مخول رہی یہ محبت
کسی نے زندگی جینی چھوڑ دی دوست
تم کو وہ لڑکا پسند ہے کہ وہ سگرٹ نہیں پیتا
اب تو میں بھی پینی چھوڑ دی دوست
گلیوں کی راستوں کی مُحلوں کی خیر ہو
تیری طرف کے سارے درختوں کی خیر ہو
وہ چھت پے آ گئی ہے کُھلے بال چھوڑ کر
اُڑتے ہوئے فلک پہ پرندوں کی خیر ہو
جو ہاتھ تیرا تھام کے سِگنل کے پار ہوں
ان خوش نصیب سارے ہی اندھوں کی خیر ہو
ہو کے روپوش نہ دل توڑ تمنائی کا
حوصلہ پست نہ کر اپنے تُو شیدائی کا
نِت نئے رُوپ میں تجھے دیکھا جس جا دیکھا
کیا ٹھکانہ ہے رُخِ یار کی زیبائی کا
کبھی مسجد، کبھی مندر، کبھی دِل میں مُقیم
کیا پتا پائے کوئی اس بُتِ ہرجائی کا
لائی پھر اِک لغزشِ مستانہ تیرے شہر میں
پھر بنیں گی مسجدیں میخانہ تیرے شہر میں
آج پھر ٹوٹیں گی تیرے گھر کی نازک کھڑکیاں
آج پھر دیکھا گیا دیوانہ تیرے شہر میں
جُرم ہے تیری گلی سے سر جُھکا کر لوٹنا
کُفر ہے پتھراؤ سے گھبرانا تیرے شہر میں
گاہے گاہے جو اِدھر آپ کرم کرتے ہیں
وہ ہیں اُٹھ جاتے ہیں یہ اور ستم کرتے ہیں
جی نہ لگ جائے کہیں تجھ سے اسی واسطے بس
رفتہ رفتہ ترے ہم ملنے کو کم کرتے ہیں
واقعی یوں تو ذرا دیکھیو سبحان اللہ
تیرے دکھلانے کو ہم چشم یہ نم کرتے ہیں
ساقیا دے بھی مئے روح افزا تھوڑی سی
بے وفا عمر کرے اور وفا تھوڑی سی
ہم تو اُس آنکھ کے ہیں دیکھنے والے دیکھو
جس میں شوخی ہے بہت اور حیا تھوڑی سی
وعدۂ غیر پہ کیا ہوتی ہے جلدی اُن کو
ہاتھ دھو ڈالتے ہیں مَل کے حنا تھوڑی سی
اُس نے دو چار کر دیا مجھ کو
ذہنی بیمار کر دیا مجھ کو
کیوں نہیں دسترس میں میرے تُو
کیوں طلبگار کر دیا مجھ کو
کبھی پتھر، کبھی خدا اس نے
چاہا جو یار کر دیا مجھ کو
کوئی اپنے نہ آس پاس ہے سائیں
دل ہمارا اداس ہے سائیں
پہلے ہر ایک یار تھا اپنا
لیکن اب اقتباس ہے سائیں
میرے زخموں کو یوں کھریدیں مت
آپ سے التماس ہے سائیں
ہر شاخ گل کو بے سر و ساماں بنا دیا
یاروں نے گلستاں کو بیاباں بنا دیا
تخلیق سب کی ایک ہے اعمال نے مگر
کافر تجھے تو مجھ کو مسلماں بنا دیا
اس جان گلستاں کی تمنا نے اے ندیم
مجھ کو ہر اک چمن سے گریزاں بنا دیا
بُنائی
میں نے اپنا ذہن ادھیڑا
ایک خیال کا لمبا سُوتر سیدھا کر کے
قوسِ قزح کے رنگ لگائے
اور لپیٹا
اس کے جسم کا ناپ لیا
امیدوں کی عینک پہنی
ظالموں پر نہ افسوس کوئی کرے
قاتلوں پر نہ آہیں کوئی بھی بھرے
جن کو مٹی کا پیوند رب نے کیا
جو ہو مومن اُنہیں آج پُرسہ نہ دے
قاتلو! ہاں تم ہی ہو نا وہ
جس نے برسوں تلک
سورج ڈھلنے میں تھوڑی دیر باقی ہے
ابھی چند ساعتوں کے بعد
شام کے سائے گزرگاہوں پر پھیلنے لگیں گے
اور ٹریفک کسی مریض کے دل کی طرح
خودبخود تیز ہوجائے گی
پرندے جب شام کو آشیانوں کی طرف لوٹتے ہیں
آنکھ کو آئینہ سمجھتے ہو
تم بھی سب کی طرح سمجھتے ہو
دوست اب کیوں نہیں سمجھتے تم؟
تم تو کہتے تھے ناں، سمجھتے ہو
اپنا غم تم کو کیسے سمجھاؤں
سب سے ہارا ہُوا سمجھتے ہو
یہاں ہر شخص اپنے گھر سے کم باہر نکلتا ہے
بدن کھو بیٹھنے کے ڈر سے کم باہر نکلتا ہے
کوئی سودا مِرے سر میں سماتا ہی نہیں، لیکن
سما جائے تو پھر وہ سر سے کم باہر نکلتا ہے
جہاں سورج برس میں ایک یا دو دن چمکتا ہو
وہاں سایہ کسی پیکر سے کم باہر نکلتا ہے
سمے کے رستے میں بیٹھنے سے
تو صرف چہروں پہ گرد جمتی ہے
اور آنکھوں میں خواب مرتے ہیں
جن کی لاشیں اُٹھانے والا کوئی نہیں ہے
ہماری قسمت کے زائچوں کو بنانے والا کوئی ہو شاید
پر ان کا مطلب بتانے والا کوئی نہیں ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خوشی سے میرا تعارف ہُوا اوائلِ غم
پھر اس کے بعد تو دنیا تھی اور مسائلِ غم
مجھے پلٹنا پڑا خواہشوں کے جنگل سے
میں خود بہ خود ہی ہُوا جا رہا تھا مائلِ غم
میں اس کے سامنے خوشیاں اُٹھا کے لے آیا
وہ دے رہا تھا مسلسل مجھے دلائلِ غم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میں اُس زمانے کا منتظر ہوں، زمانہ جب بے مثال ہو گا
ہر ایک مسجد مدینہ ہو گی، ہر اک مؤذن بلالؓ ہو گا
چمک اٹھے گر ضمیر اپنے، جو ہو گئے ہم اسیر اپنے
ہر ایک آہٹ چراغ ہو گی، ہر ایک سایہ ہلال ہو گا
حضورؐ کے آئینے اٹھا کر، چلے جو پہچانے جائیں گے ہم
سفارشِ عشقِ مصطفیٰؐ سے ہمارا باطن بحال ہو گا
لوگ تو لوگ ہیں لوگوں کی طرح دیکھتے ہیں
ایک ہم ہیں اسے بچوں کی طرح دیکھتے ہیں
ہم کو دنیا نے لکڑہارا سمجھ رکھا ہے
ہم تو پیڑوں کو پرندوں کی طرح دیکھتے ہیں
میں جو دیکھوں تو جھپکتی نہیں پلکیں میری
اور حضرت مجھے اندھوں کی طرح دیکھتے ہیں
کتبہ
کل جو قبرستان سے لوٹا
تو تنہائی کا اک بوجھ اٹھا کر لایا
ایسے لگتا تھا کہ میں بجھتا دیا ہوں
اور سب لوگ تماشائی ہیں
منتظر ہیں کہ مرے بجھنے کا منظر دیکھیں
ایسے لگتا تھا کہ ہر گام پر کھلتے دہانے ہیں
غیر کا بھی مری حالت پہ جگر کٹتا ہے
میں اگر جسم بچاتا ہوں تو سر کٹتا ہے
یہ جو چڑھ دوڑے ہیں بستی پہ محافظ اس کے
لگ رہا ہے کہ نگر بارِ دگر کٹتا ہے
پاؤں زنجیر کرو،۔ راستے دیوار کرو
ارے نادان! کبھی یوں بھی سفر کٹتا ہے
بات کوئی امید کی، مجھ سے نہیں کہی گئی
سو مرے خواب بھی گئے، سو میری نیند بھی گئی
دل کا تھا ایک مدعا، جس نے تباہ کر دیا
دل میں تھی ایک ہی تو بات وہ جو فقط سہی گئی
جانیے کیا تلاش تھی، جون مِرے وجود میں
جس کو میں ڈھونڈتا گیا جو مجھے ڈھونڈتی گئی
آپ جن کو، ہدف تیرِ نظر کرتے ہیں
رات دن، ہائے جگر، ہائے جگر کرتے ہیں
اور کیا داغ کے اشعار اثر کرتے ہیں
گدگدی، دل میں حسینوں کے مگر کرتے ہیں
غیر کے سامنے یوں ہوتے ہیں، شکوے مجھ سے
دیکھتے ہیں وہ ادھر، بات اُدھر کرتے ہیں
جنموں کی داستاں ہے یہ عمروں کا میل ہے
کس نے کہا ہے عشق بھی رنگوں کا کھیل ہے
انساں تِرے نصیب کی گندم نہ اُگ سکی
سونا پہاڑ میں، کہیں صحرا میں تیل ہے
وہ دُکھ بھی دے تو کر نہیں سکتی اسے جُدا
لپٹی ہوئی بدن سے یہ آکاس بیل ہے
یہ کہ کب میسر تھیں کافی الفتیں مجھ کو
راس بھی نہیں آئیں کچھ حمایتیں مجھ کو
مجھ کو تو ڈبویا ہے منجدھار میں تو نے
دے نہ یونہی میری قسمت وضاحتیں مجھ کو
کیا ہے حیثیت میری کیسے ہوں میں اثرانداز
کیا ہو گا کسی سے ہوں گر شکایتیں مجھ کو
تِری بربادیوں کا ذکر بزم دل براں تک ہے
کہاں کی بات ہے اے دل مگر پہنچی کہاں تک ہے
تُو کیا جانے محبت کے مزے اے ناصح ناداں
پہنچ تِری نگاہوں کی فقط سُود و زیاں تک ہے
ہم انساں ہیں مگر تخلیق اعلیٰ ہیں کہ اے ہمدم
ہمارے اوج کا چرچا زمیں سے آسماں تک ہے
یوں ہی ظالم کا رہا راج اگر اب کے برس
غیرممکن ہے رہے دوش پہ سر اب کے برس
جسم بوئیں گے ستمگار اناجوں کی جگہ
اور فصلوں کی طرح کاٹیں گے سر اب کے برس
ذہن سے کام لو اور موڑ دو طوفان کا رخ
ورنہ آنسو میں ہی بہہ جائیں گے گھر اب کے برس
کسی کسی کو ہی آتے ہیں راس افسانے
ہمیں تو کرتے ہیں اکثر اداس افسانے
نئے زمانے کے ان میں کئی اشارے ہیں
بہت پرانے ہیں گو میرے پاس افسانے
خوشی کے واسطے جس نے گلے لگایا انہیں
اسی کو چھوڑ گئے محو یاس افسانے
تنہائی
صبح کا ہنستا ستارہ تنہا
کون جانے رات بھر کس کرب سے گزرا ہے
ان گھنے پیڑوں سے لمبے تیز دانتوں والے عفریت نکل کر
ٹیڑھی ٹانگوں بد نما پیروں سے کومل چاندنی کے فرش پر ناچے
کھردرے ہاتھوں سے پھولوں کے جگر چاک کئے
اپنی نظروں کی سیاہی سے نکھرتے ہوئے رنگوں کے چراغوں کو بجھایا
خوب تصویر ملے گی میرے کُرتے سے تمہیں
صنفِ کشمیر ملے گی میرے کُرتے سے تمہیں
روز کرتا تھا میں کشمیر کے دُکھ کا ماتم
سُرخ زنجیر ملے گی میرے کُرتے سے تمہیں
بھیجا کرتی تھی وہ اُس پار سے پُر اشک خطوط
جن کی تشہیر ملے گی میرے کُرتے سے تمہیں
اے بلائے محبت مِرے سر سے ٹل، چل نکل
مطمئن ہے دلِ ناتواں آج کل، چل نکل
آبیاری نہ تجھ سے ہوئی برمحل، چل نکل
باغِ دل بن گیا تیری غفلت سے تھل، چل نکل
بے وفائی کا عنصر تِری ذات میں دیکھ کر
دل نے کر دی فسانے میں ردّ و بدل، چل نکل
جب ان سے مِری پہلی ملاقات ہوئی تھی
اس دن ہی قیامت کی شروعات ہوئی تھی
اتنا ہے مجھے یاد، کبھی بات ہوئی تھی
رسماً ہی سہی، ان سے ملاقات ہوئی تھی
خط پڑھ کے خفا تو ہوا اور اس نے کیا کہا
قاصد! مِرے بارے میں کوئی بات ہوئی تھی؟
اس نے خودی کا نشہ اترنے نہیں دیا
خود مر گیا، ضمیر کو مرنے نہیں دیا
آتا ہوا دکھائی دیا تھا وہ دور سے
پھر یہ ہوا کہ ساتھ نظر نے نہیں دیا
احساس تو مجھے بھی سفر میں تھکن کا تھا
سایہ مگر کسی بھی شجر نے نہیں دیا
دل نے وحشت گلی گلی کر لی
اب گلہ کیا، بہت خوشی کر لی
یار! دل تو بلا کا تھا عیاش
اس نے کس طرح خود کشی کر لی
نہیں آئیں گے اپنے بس میں ہم
ہم نے کوشش رہی سہی کر لی
آئے ہو جب بڑھا کر دل کی جلن گئے ہو
جوں سوز دل کہا ہے تم آگ بن گئے ہو
روٹھے سے روٹھے ہم سے منتے نہیں ہو کیونکر
غیروں سے جب لڑے ہو لڑتے ہی من گئے ہو
جاؤ تو جاؤ سوئے دشمن، سوئے فلک کیوں
اے گرم نالہ ہائے آتش فگن گئے ہو
جو دن کسی کے ساتھ گزرے، نہ مل سکے
حالات گیسوؤں کو سنوارے، نہ مل سکے
جن کشتیوں کو میرے مقدر کی رو ملی
ان کشتیوں کو گھاٹ کنارے، نہ مل سکے
تم کیا گئے کہ رونقِ ہستی چلی گئی
غنچے نہ مسکرائے، ستارے نہ مل سکے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت (حرفِ نیاز)
بخت یاور ہو اگر نعتِ پیمبرؐ لکھوں
مدحتِ سرورِ کونینؐ کے دفتر لکھوں
نوکِ مژگاں سے سرِ مطلعِ انور لکھوں
وصفِ سرکارؐ لکھوں اور مکرر لکھوں
بامِ تخیل پہ عابد ہے مزاج اپنا اِس دم
جیسے الفاظ کی دنیا پہ ہے راج اپنا اِس دم
تنویر سپرا
ستارے کا چلن لے کر، وہ برق و ابر میں زندہ
دُکھوں کے بار سے بوجھل، ثبات و صبر میں زندہ
دنوں کے قہر میں ہنستا، شبوں کے جبر میں زندہ
لڑاتا موت سے سانسیں، بدن کی قبر میں زندہ
رہا زندہ وہ جس انداز سے کچھ اُس کا ہی دم تھا
جیا جس شانِ سر افراز سے کچھ اُس کا دم تھا
جدا ہوتے نہیں ایسے بھی کچھ آزار ہوتے ہیں
سفر کے آخری رستے بڑے دشوار ہوتے ہیں
جو چہرے پر لکھی تحریر پڑھ لیتے ہیں پل بھر میں
کچھ ایسے لوگ ہیں مثل ستارہ بار ہوتے ہیں
یہاں جو بھی ہے سب باطل نظر کا ایک دھوکہ ہے
تو پھر کس بات پر ہم یونہی دعویدار ہوتے ہیں
موجود تھا، موجود ہوں، موجود رہوں گا
تم دفن کرو، صُورتِ سبزہ میں اُٹھوں گا
تم شب کی سیاہی میں مجھے قتل کرو گے
اور صبح کے اخبار کی سُرخی میں بنوں گا
آثار بتاتے ہیں؛ وہ دن دُور نہیں ہے
میں صُورت مہتاب خلاؤں میں اُڑوں گا
میں نے ایک لوہے کا چاند نگل لیا
میں نے لوہے کا ایک چاند نگل لیا
وہ اسے کیل کہتےہیں
میں صنعتی اخراج، یہ نوکری کی ٹھکرائی ہوئی عرضیاں نگل چکا ہوں
مشین پر جھکے ہوئے نوجوان وقت سے پہلے مر جاتے ہیں
میں شوروغوغا اور تہی دستی نگل چکا ہوں
کیسی کیسی آیتیں مستور ہیں نقطے کے بیچ
کیا گھنے جنگل چھپے بیٹھے ہیں اک دانے کے بیچ
رفتہ رفتہ رخنہ رخنہ ہو گئی مٹی کی گیند
اب خلیجوں کے سوا کیا رہ گیا نقشے کے بیچ
میں تو باہر کے مناظر سے ابھی فارغ نہیں
کیا خبر ہے کون سے اسرار ہیں پردے کے بیچ
یوم مئی یوم مزدور پہ
چہرے ہیں ندامت سے شرابور ہمارے
ہیں آج بھی کچھ کام پہ مزدور ہمارے
غربت کے پسینے سے بدن ڈھانپ رہے ہیں
کچھ اتنی تھکاوٹ ہے کہ سب ہانپ رہے ہیں
بے کار ہیں سب عنبر و کافور ہمارے
ہیں آج بھی کچھ کام پہ مزدور ہمارے
اپنی آنکھوں پر وہ نیندوں کی ردا اوڑھے ہوئے
سو رہا ہے خواب کا اک سلسلہ اوڑھے ہوئے
سردیوں کی رات میں وہ بے مکاں مفلس بشر
کس طرح رہتا ہے اکلوتی ردا اوڑھے ہوئے
اک عجب انداز سے آئی لحد پر اک دلہن
چوڑیاں توڑے ہوئے دست حنا اوڑھے ہوئے
زندگی اب اس قدر سفاک ہو جائے گی کیا
بھوک ہی مزدور کی خوراک ہو جائے گی کیا
میرے قاتل سے کوئی اے کاش اتنا پوچھ لے
یہ زمیں میرے لہو سے پاک ہو جائے گی کیا
ہر طرف عریاں تنی کے جشن ہوں گے روز و شب
اس قدر تہذیب نو بے باک ہو جائے گی کیا
مِری نظر مِرا اپنا مشاہدہ ہے کہاں
جو مستعار نہیں ہے وہ زاویہ ہے کہاں
اگر نہیں تِرے جیسا تو فرق کیسا ہے
اگر میں عکس ہوں تیرا تو آئینہ ہے کہاں
ہوئی ہے جس میں وضاحت ہمارے ہونے کی
تِری کتاب میں آخر وہ حاشیہ ہے کہاں
کبھی سُورج بھی نکلے گا
ابھی سورج نہیں نکلا
سڑک پر گاڑیوں کے قافلے آئے نہیں
لیکن دِہاڑی دار مزدوروں کا اک سَیلِ بدن مایہ
اُمڈ کر چوک میں آیا
بدن پر میل میں لپٹی ہزاروں سلوٹیں پہنے
پھٹے پیروں میں ٹھنڈی خاک کے جُوتے
مزدور کی بانسری
مزدور ہیں ہم، مزدور ہیں ہم، مجبور تھے ہم، مجبور ہیں ہم
انسانیت کے سینے میں رستا ہوا اک ناسور ہیں ہم
دولت کی آنکھوں کا سرمہ بنتا ہے ہماری ہڈی سے
مندر کے دیئے بھی جلتے ہیں مزدور کی پگھلی چربی سے
ہم سے بازار کی رونق ہے، ہم سے چہروں کی لالی ہے
جلتا ہے ہمارے دل کا دیا دنیا کی سبھا اجیالی ہے
زخم اب تک وہی سینے میں لیے پھرتا ہوں
کوفے والوں کو مدینے میں لیے پھرتا ہوں
جانے کب کس کی ضرورت مجھے پڑ جائے کہاں
آگ اور خاک سفینے میں لیے پھرتا ہوں
ریت کی طرح پھسلتے ہیں مِری آنکھوں سے
خواب ایسے بھی خزینے میں لیے پھرتا ہوں