اور
تمہیں میں اور سمجھا تھا
تمہیں دل میں بسایا تھا
تمہاری بات مانی تھی
تمہیں سینے لگایا تھا
تمہارے درد پالے تھے
مگر تم کو ہنسایا تھا
تمہاری بے تکی باتوں پہ
گھنٹوں مسکرایا تھا
تمہاری لاج رکھی تھی
تمہیں سر پہ بٹھایا تھا
تمہیں تنہا سمجھ کہ میں
نے اپنا ہاتھ بخشا تھا
مجھے دنیا میسر تھی
مگر میں تم پہ ٹہرا تھا
مجھے پھر تم نے بتلایا
کہ تم تو اور ہی کچھ ہو
میں تم کو اور سمجھا تھا
میں سمجھا تھا کہ سمجھو گے
مِری چاہت کہ افسانے
مگر تم سرسری نکلے
مجھے افسوس ہے یارا
کہ تم بھی اور ہی نکلے
حمزہ حسام
No comments:
Post a Comment