بشر کے روپ میں پھرتے ہوئے خدا کا دُکھ
کہ جانتا ہوں میں ہاری ہوئی انا کا دکھ
جو جاتے وقت سمیٹا سماعتوں نے تیری
میرے وہ ہونٹ کی لرزش تھی اور صدا کا دکھ
مجھے تو خیر تیری بد دُعا سے کچھ نہ ہُوا
کہ مجھ کو چاٹ گیا تیری بد دُعا کا دکھ
یہ خون روتی ہوئی غزلیں یوں نہیں لکھیں
ہے اس کے پیچھے چُھپا یار شاعرہ کا دکھ
کہ ضرب وقت سے دونوں گرے ہوئے ہیں ہم
ہے ایک جیسا میرا اور فاختہ کا دکھ
مجھے وہ اب بھی نظر آتی ہیں اُداس آنکھیں
کہ بُھول ہی نہیں پایا میں اس نگاہ کا دکھ
یہ تو کبھی نہیں سمجھے گی میری شاہزادی
کہ کتنا مختلف ہوتا ہے ایک شاہ کا دکھ
بہت سے قصوں کو یہ مُنکشف کیے ہوئے ہے
یہ میرے چہرے پہ چھایا ہوا بلا کا دکھ
کسی کی آنکھ کے آنسو بہائے ہیں میں نے
کبھی کسی نے نہیں دیکھا اس طرح کا دکھ
مبین دھاریجو
No comments:
Post a Comment