عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
زندگی اُس کی بصد رنگِ دگر رہتی ہے
جس کے ارماں کی مدینے پہ نظر رہتی ہے
نارسا عرض کو وحشت نہیں بننے دیتے
اُنؐ کو احساسِ نہاں تک کی خبر رہتی ہے
جان و دل، ہوش و خرد لوٹ کے آ جاتے ہیں
روح میں پھر بھی عجب موجِ سفر رہتی ہے
ایک ہی شب میں وہ چمکا تھا سرِ بامِ طلب
اب تو ہر شب ہی مِری رشکِ قمر رہتی ہے
آنکھ کو بُجھنے نہیں دیتی فصیلِ حیرت
پلکوں سے لگ کے کہیں راہگُزر رہتی ہے
موجۂ بادِ صبا آئے گا امکان بہ لب
میں ہُوں دیوار جسے حسرتِ در رہتی ہے
دید اِک خواب ہے اور دور سمندر سے پرے
اُس کی تعبیر پسِ دیدۂ تر رہتی ہے
عکس بالذّات نہیں ہوتا ہے امکان کوئی
ہم وہاں رہتے ہیں، وہؐ ذات جدھر رہتی ہے
اذن آئے گا تو دیکھ آئیں گے وہ شہرِ کرم
آرزو ہے جو ابھی خاک بسر رہتی ہے
کرتا رہتا ہُوں اُسی اسم کی مدحت، اور یُوں
میری امّید بھی ایقان کے گھر رہتی ہے
مصرعِ نعت چمک اُٹھا ہے مقصود ابھی
خواہشِ نُطق کہاں دست نِگر رہتی ہے
مقصود علی شاہ
No comments:
Post a Comment