بلبل
چمن میں لائی ہے پھولوں کی آرزو تجھ کو
ملا کہاں سے یہ احساس رنگ و بو تجھ کو
تری طرح کوئی سرگشتۂ جمال نہیں
گلوں میں محو ہے کانٹوں کا کچھ خیال نہیں
خزاں کا خوف نہ ہے باغباں کا ڈر تجھ کو
مآل کار کا بھی کچھ خطر نہیں تجھ کو
خوش اعتقاد و خوش آہنگ خوش نوا بلبل
جگر کے داغ کو پر نور کر دیا کس نے
تجھے اس آگ سے معمور کر دیا کس نے
یہ دل یہ درد یہ سودا کہاں سے لائی ہے
کہاں کی تو نے یہ طرز فغاں اڑائی ہے
تجھے بہار کا اک مرغ خوش نوا سمجھوں
کہ درد مند دلوں کی کوئی صدا سمجھوں
سوا اک آہ کے سامان ہست و بود ہے کیا
تو ہی بتا ترا سرمایۂ وجود ہے کیا
وہ نقد جاں ہے کہ ہے نالۂ حزیں تیرا
نشان ہستیٔ موہوم کچھ نہیں تیرا
اسے بھی وقف تمنائے یار کر دینا
نثار جلوۂ گل جان زار کر دینا
ہزار رنگ خزاں نے بہار نے بدلے
ہزار روپ یہاں روزگار نے بدلے
تری قدیم روش دیکھتا ہوں بچپن سے
ہے صبح و شام تجھے کام اپنے شیون سے
اثر پذیر حوادث ترا ترانہ نہیں؟
دیار عشق میں یا گردش زمانہ نہیں؟
نہ آشیانہ کہیں ہے نہ ہے وطن تیرا
رہے گا یوں ہی بسیرا چمن چمن تیرا
ترا جہان ہے بالا جہان انساں سے
کہ بے نیاز ہے تو حادثات امکاں سے
ترا فروغ فروغ جمال جاناں ہے
ترا نشاط نشاط گل و گلستاں ہے
تری حیات کا مقصد ہی دوست داری ہے
ترا معاملہ سود و زیاں سے عاری ہے
ازل کے دن سے ہے محو جمال جانانہ
رہے گی تا بہ ابد ماسوا سے بے گانہ
تجھے کس آگ نے حرص و ہوا سے پاک کیا
تمام خرمن ہستی جلا کے خاک کیا
مجھے بھی دے کوئی داروئے خود فراموشی
جہاں و کار جہاں سے رہے سبکدوشی
متاع ہوش کو اک جستجو میں کھونا ہے
مجھے بھی یعنی ترا ہم صفیر ہونا ہے
''تو خوش بنال مرا با تو حسرت یاری است ''
''کہ ما دو عاشق زاریم و کار ما زاری است''
مجنوں گورکھپوری
No comments:
Post a Comment