Thursday, 23 May 2024

ناز کر ناز کہ ہے ان کے طلبگاروں میں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


ناز کر ناز کہ ہے اُنؐ کے طلبگاروں میں

کم کسی سے نہیں نعمت یہ گنہگاروں میں

ہر طرف تم ہی نظر آئے ہو نظاروں میں

اس طرح بس گئے ہو تم مِرے افکاروں میں

ہجر کی آگ کسوٹی ہے محبت والوں

بُوالہوس رہ نہیں سکتے کبھی انگاروں میں

قُربتِ شہرِ مدینہ کی یہی ہے صُورت

ہم کو چُن دے کوئی اس شہر کی دیواروں میں

شوق پورا ہو ہماری بھی غلامی کا اگر

ہم بھی بک جائیں تِرےؐ نام پہ بازاروں میں

ہیں اِدھر اشکِ ندامت تو اُدھر زہد پر ناز

بس یہی فرق ہے زاہد میں گنہگاروں میں

جب بھی ہوتی ہے نظر سوئے غریباں اُنؐ کی

پُھول کِھل جاتے ہیں کچھ نعت کے اشعاروں میں

دل کے چھالوں کا ہے پانی مِری آنکھوں میں ادیب

ہجر کا پُھول ہوں، مسکن ہے مِرا خاروں میں


ادیب رائے پوری

No comments:

Post a Comment