یہ بڑھا درد آج میں کل میں
کل تھا پیڑو میں آج کل کل میں
سوت جل کُکڑی آ گئی بل میں
بہل ہی جاتی ہے اپنی ہے چہل میں
تل نہیں مانگ میں زناخی میں
یہ کنہیا کھڑا ہے گوکل میں
آنکھ لڑتے ہی ہو گئی عاشق
موہنی تھی موئے کے کاجل میں
آنکھ نرگس کسی سے لگنے دے
چھوڑ دوں گی موئے کو ایک پل میں
گیہوں ہل ہل کے میں اٹھا نہ سکی
بچہ ہونے کے اوہی ہل بل میں
باجی جینا مجھے وبال ہوا
دیکھ کر ایک نائی کی قلمیں
تیرے ہی سر کی ہے قسم عنبر
بُو محبت کی پائی صندل میں
چھوڑا لیلیٰ کو تھا سڑی مجنوں
کون یہ دیکھتا تھا جنگل میں
نین سکھ کو سمجھ نہ گاڑھا یار
آ نہ محمودی اس کی چل بل میں
سے کی چادر تلک نہ چھوڑے گا
باندھ رکھ میری بات آنچل میں
میں پڑے کیا اہیر کے گھر میں
پھنس گئی بوڑھی نہیں دلدل میں
میم صاحب گلے پڑے اے جان
سر ڈھنکا کیوں یہ ٹھیری کونسل میں
میر یار علی جان
No comments:
Post a Comment