تپش سے بھری دیواریں
جی چاہتا ہے تپش سے بھری
دیوار کے سائے میں لیٹی بلی کو ایک واقعہ سناؤں
ان دنوں کا واقعہ جب کہانی
دلبرداشتہ ہو کر منڈیر سے باہر نہیں کُودتی تھی
کہانی گھاس کے اس تنکے سے
بھی ہمکلام ہوتی تھی جو انجانے
میں کسی مُسافر کے پاؤں میں چُبھ کر پشیماں رہتا تھا
کہانی آئینے میں سوتی جاگتی
اور پھر نیا رُوپ لے کر اس کے
سنگ ہو جاتی تھی جہاں ہو بہو
تصور نما یزداں رہتا تھا
کہانی بیاہتا عورت کے کانوں کی
بالی بن کر موتیے کے پھول کی طرح مہکتی تھی
کہانی کپڑے کی اس سلائی میں
ساتھ ساتھ سِلتی تھی جو ایک
شبیہہ اپنے ہمزاد کے لیے سیتی تھی
یہ ان دِنوں کا واقعہ ہے جب
دیواریں تپش روک کر آنگن میں
بیٹھے ایک لڑکے کو اپنے سائے میں پناہ دیتی تھیں
خوابوں سے تراشیدہ اس لڑکے
کے کشیدہ ململ کے کرتے پر
تین سنہری بٹن کہانی سے چھپتے تھے
اس کے پاؤں سے لمبی دوپہروں
کے سائے لپٹ کر کہانی کی سن گن لیتے تھے
یہ ان دِنوں کا واقعہ ہے جب
تپش بھری دیواروں کی اوٹ سے
دو سیاہ آنکھیں جھانکتی تھیں
کہانی کو بہلا کر ایک کٹورا
ٹھنڈے پانی کا مانگتی تھیں
سارا احمد
No comments:
Post a Comment