عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کب سے جاری ہے مدینے کا سفر، یاد نہیں
دل پہ جو نقش ہوا یوں، وہ نگر، یاد نہیں
جب سے ہے گنبدِ اخضرکا جمال آنکھوں میں
تب سے جنت کے دریچے، کوئی در یاد نہیں
مِری آنکھوں میں حرم کے ہیں در و بام ابھی
یاد میں جو نہیں گزری، وہ سحر یاد نہیں
وِرد ہے آپؐ کا لاریب بہاروں کی نوید
تھا کبھی دورِ خزاں، اے گُلِ تر، یاد نہیں
اک ثناء کا، مِرے آقاؐ نے ہنر بخشا ہے
یاد جو اُن کی بُھلا دے، وہ ہنر یاد نہیں
عمر کٹ جائے مِری اُن کی ثنا گوئی میں
اب کوئی کارِ جہاں، بارِ دِگر یاد نہیں
درگہِ ناز سے دوری کے سبب ہیں غمگیں
آنکھ ہے کب سے گُہر بار، مگر یاد نہیں
بے خودی، عشق شہِؐ دیں میں ہوئی یوں طاری
اُنؐ کے عشّاق کو کچھ اپنی خبر، یاد نہیں
ڈھونڈنے والوں کو مل جائے گی منزل، زینب
گرچہ، منزل کا نشاں، راہگزر یاد نہیں
سیدہ زینب سروری قادری
No comments:
Post a Comment