جو شخص نازِ حُسنِ جوانی میں آ گِرا
سمجھو کہ وہ بھی نقل مکانی میں آ گرا
اُترا فراز سے تو لگا اس طرح مجھے
دشتِ نشیب کی میں گِرانی میں آ گرا
بچپن میں سنگ جو کہ اُٹھایا تھا ہاتھ میں
وہ سنگ جُوئے زورِ جوانی میں آ گرا
جس کی کہیں بھی ہم کو ضرورت نہ تھی اے دوست
کردار خود بخود وہ کہانی میں آ گرا
عشرت کدہ میں جس کو تلاشا گیا بہت
گوہر وہ میری اشک فِشانی میں آ گرا
وہ بد نصیب آب گزیدہ کہیں جسے
خُشکی کو چھوڑ چھاڑ کے پانی میں آ گرا
دامن انصاری
No comments:
Post a Comment