رفتہ رفتہ جذبِ الفت میں کمال آ ہی گیا
ہجر کے پردے سے پیغام وصال آ ہی گیا
اضطرابِ دل بشکلِ راز آخر تا بہ کے
تشنۂ دیدار کے لب پر سوال آ ہی گیا
میرے دستِ آرزو میں لاکھ ناکامی پہ بھی
وہ نہیں تو ان کا دامانِ خیال آ ہی گیا
یہ تو اب تک پھونک دیتا ہستیٔ کونین کو
وہ تو کہیے عشق میں کچھ اعتدال آ ہی گیا
نقش دُھندلے ہو چکے ہیں سانحات زیست کے
جانے کیا دیکھا کہ پھر ان کا خیال آ ہی گیا
سر پہ سودائے محبت پا بہ زنجیر جنوں
تیرے در پر وحشئ آشفتہ حال آ ہی گیا
وحشی کانپوری
No comments:
Post a Comment