Monday, 27 May 2024

رفتہ رفتہ جذب الفت میں کمال آ ہی گیا

 رفتہ رفتہ جذبِ الفت میں کمال آ ہی گیا

ہجر کے پردے سے پیغام وصال آ ہی گیا

اضطرابِ دل بشکلِ راز آخر تا بہ کے

تشنۂ دیدار کے لب پر سوال آ ہی گیا

میرے دستِ آرزو میں لاکھ ناکامی پہ بھی

وہ نہیں تو ان کا دامانِ خیال آ ہی گیا

یہ تو اب تک پھونک دیتا ہستیٔ کونین کو

وہ تو کہیے عشق میں کچھ اعتدال آ ہی گیا

نقش دُھندلے ہو چکے ہیں سانحات زیست کے

جانے کیا دیکھا کہ پھر ان کا خیال آ ہی گیا

سر پہ سودائے محبت پا بہ زنجیر جنوں

تیرے در پر وحشئ آشفتہ حال آ ہی گیا


وحشی کانپوری

No comments:

Post a Comment