Thursday, 30 May 2024

گلی سے وہ گزرا ہے خوشبو لگا کے

 گلی سے وہ گزرا ہے خوشبو لگا کے

بتاتے رہے مجھ کو جھونکے ہوا کے

رلا کر ہنسایا، ہنسا کر رلایا

برابر وہ بچپن کی باتیں سنا کے

عجب ہے کہ اب بھی ہے محفل کا حصہ

وہ عاشق مزاجوں پہ انگلی اٹھا کے

ہوا ذکر میرا بھری انجمن میں

کہا; چھوڑو قصے تم اس بے وفا کے

رقیبوں نے میرے بڑا تیر مارا

مِرے ہی عزیزوں کو اپنا بنا کے

کرے زیر شہ کو، گدا کو زبر یوں

نرالے سبھی فیصلے ہیں خدا کے

وہ زرے ابھی تک ہیں تاباں اے صارِم

کہ جن پر پڑے ہیں قدم مصطفیٰ کے


سمیع اللہ صارم

No comments:

Post a Comment