مرے ہجر کا تُو علاج کر کوئی حل بتا مرے سائیاں
مِرے درد کو مرے کرب کو تُو پرے ہٹا مِرے سائیاں
مجھے دیکھ جا مِرے چارہ گر میں تِری نظر کا شکار ہوں
کہاں کیوں ہوا کہاں کیا ہوا نہ مجھے سنا مِرے سائیاں
زرا ہاتھ رکھ کے تو ہاتھ پر مِری دھڑکنوں کو قرار دے
مجھے ریزہ ریزہ سمیٹ کر تُو گلے لگا مِرے سائیاں
نہ بتا مجھے کہ زمانے نے تجھے کیسے مجھ سے جدا کیا
تجھے عشق ہے جو ابھی تلک مِرے پاس آ مِرے سائیاں
مِرے حوصلے کو تُو داد دے مِرے حسنِ ظن پہ تو جان دے
میں یہی رہا سدا سوچتا تُو ہے بے خطا مِرے سائیاں
تِرے چونکنے سے پتہ چلا مِرا نام اب بھی عزیز ہے
مِرے نام پر جو جھکا ہے اب زرا سر اٹھا مِرے سائیاں
مجھے شوقِ لطف سے دیکھ کر نہ تُو کر اشارے فریب کے
تُو پلٹ پلٹ کے نہ بات کر نہ یہاں سے جا مِرے سائیاں
آفتاب شاہ
No comments:
Post a Comment