Wednesday, 22 May 2024

درود ان پر کہ دست اقدس کو چھو گیا جو وہ چہرہ چمکا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


درود ان پر کہ دستِ اقدس کو چھُو گیا جو وہ چہرہ چمکا

سلام ان پر کہ چھُو کے ان کے قدم کو رستہ ہر ایک مہکا

درود ان پر کہ دستِ اقدس سے پانچ چشمے ہوئے تھے جاری

سلام ان پر کہ سیر ان سے ہوئی صحابہؓ کی فوج ساری

درود ان پر کہ جن کی آنکھیں بغیر سُرمہ کے سُرمگیں تھیں

سلام ان پر کہ وہ سفیدی میں سُرخ ڈوروں سے کیا حسیں تھیں

درود ان پر بقولِ حضرت علیؑ کشادہ سیہ تھیں آنکھیں

سلام ان پر حسین آنکھوں پہ پہرہ دیتی دراز پلکیں

درود ان پر کہ رات میں بھی سحر کی مانند دیکھتے تھے

سلام ان پر نمازیوں کے خشوع مخفی نہیں تھے ان سے

درود ان پر ہے شان ان کی وہ حق نما ہیں وہ حق نگر ہیں

سلام ان پر بقولِ قرآں انہی کے ما زاغ کے بصر ہیں

درود ان پر کمان ابرو سے جب وہ چھٹتے تھے تیرِ مژگاں

سلام ان پر دلوں کے پنچھی مچل کے ہوتے تھے ان پہ قرباں

درود ان پر کہ ابروؤں کے میان ہوتی حسیں رفعت

سلام ان پر جلال میں جب کبھی ابھرتی رگِ جلالت

درود ان پر کہ ماہِ تاباں سے بڑھ کے روشن جبیں کُشادہ

سلام ان پر کہ جیسے روشن وفورِ شب میں چراغِ جادہ

درود ان پر نہیں پسینہ، جبیں پہ جیسے برستی بدلی

سلام ان پر وہ کوندی بجلی پکار اٹھا کبیر ھزلی

درود ان پر جبیں کشادہ، کمان ابرو، دراز مژگاں

سلام ان پر کہ جگمگاتی وہ اونچی بینی تھی نُور افشاں

درود ان پر کہ سہل و ابیض اسیل ان کے چمکتے عارض

سلام ان پر بوقتِ غصّہ انار جیسے دمکتے عارض

درود ان پر کہ ریش انور کا چاند چہرے کے گرد ہالہ

سلام ان پر دہن تھا دریا کے گرد سبزے کا اک حوالہ

درود ان پر کہ پتلی پتلی گلِ مقدّس کی سُرخ پتیاں

سلام ان پر لبوں سے جھڑتی ٹھہر ٹھہر کے وہ میٹھی بتیاں

درود ان پر وہ مُسکرائیں تو پُھول کلیوں میں حُسن بھر دیں

سلام ان پر کہ وہ جو بولیں تو گُفتگو میں نگینے جڑ دیں


مقصود علی شاہ 

No comments:

Post a Comment