Sunday, 26 May 2024

دیکھو ابھی ہے وادئ کنعاں نگاہ میں

 ہارون کی آواز


دیکھو ابھی ہے وادئ کنعاں نگاہ میں 

تازہ ہر ایک نقشِ کفِ پا ہے راہ میں 

یعقوبؑ بے بصر سہی یوسفؑ کی چاہ میں 

لہرا رہا ہے آج بھی طُرّہ کلاہ میں 

یہ طُرّہ گِر گیا تو اُلٹ جائے گی زمیں 

محور سے اپنے اور بھی ہٹ جائے گی زمیں 

تاریخ کے سفر میں غلط بھی قدم اُٹھے 

گاہے لباسِ فقر میں اہلِ حشم اٹھے 

گاہے صنم تراش بہ نامِ حرم اُٹھے 

پردے نگاہ کے بھی مگر بیش و کم اٹھے 

یوں بھی ہوا دہائی اکائی میں ڈھل گئی 

خورشید کے الاؤ میں ہر شے پگھل گئی 

جب یُوں نہ ہو سکا تو یہ تاریخ ہے گواہ 

اٹھے عصا بدست غلامانِ کج کُلاہ 

زیرِ زمیں کشادہ ہوئی زندگی کی راہ 

اور کچھ نہ کر سکی کسی فرعون کی سپاہ 

ہر موجِ نیل سانپ سی بَل کھا کے رہ گئی 

اہرام کی نگاہ بھی پتھرا کے رہ گئی 

اضداد کی یہ جنگ اصولِ قدیم ہے 

اور اب کہ آدمی کی اکائی دو نیم ہے 

افلاک کے تلے سہی مٹّی عظیم ہے 

ہارونؑ کی زبان بھی لوحِ کلیم ہے 

حد سے گزر نہ جائیں کہیں کمترین لوگ 

موسیٰؑ کے انتظار میں ہیں بے زمین لوگ 


حمایت علی شاعر

No comments:

Post a Comment