ایک درخت کی دہشت
میں کلہاڑے سے نہیں ڈرا
نہ کبھی آرے سے
میں تو خود کلہاڑے اور آرے کے دستے سے جڑا ہوں
میں چاہتا ہوں
کوئی آنکھ میرے بدن میں اترے
میرے دل تک پہنچے
کوئی محتاط آری
کوئی مشتاق ہاتھ مجھے تراش کر
ملاحوں کے لیے کشتیاں
اور مکتب کے بچوں کے لیے تختیاں بنائے
اس سے پہلے
کہ میری جڑیں بوڑھی داڑھ کی طرح ہلنے لگیں
یا میری خشک ٹہنیاں آپس میں رگڑ کھا کر
جنگل کی آگ بن جائیں
سعید الدین
No comments:
Post a Comment