تمہارا راج تمہارا رواج کچھ بھی کرو
کہ سو رہا ہے ہمارا سماج کچھ بھی کرو
بہت بلند فصیلیں ہیں قصر شاہی کی
سنے گا کون، صدا احتجاج کچھ بھی کرو
بساط جرم کسی دن ضرور پلٹے گی
تمہارے ہاتھ میں طاقت ہے آج کچھ بھی کرو
تمام شہر ہے اندھوں کا اور مسیحا تم
دوا دو زہر دو پیارے علاج کچھ بھی کرو
کسی طرح سے چلو نفرتیں ہی پھیلاؤ
تمہیں تو یوں بھی نہیں کام کاج کچھ بھی کرو
غزل کہو کہ قصیدے لکھو محبت کے
قلم سے کچھ نہیں ہو گا سراج کچھ بھی کرو
سراج عالم زخمی
No comments:
Post a Comment