ملنے والے کہاں کہاں سے ملے
موت کو زندگی جہاں سے ملے
ایسا خُوش رنگ پُھول ہے اک تو
تیرا ثانی ناں گُلستاں سے ملے
ڈُوب جا عشق کے سمندر میں
راستے دل کے تو وہاں سے ملے
تو خلوص و ادب کا پیکر ہے
اب دُعا تجھ کو ہر زباں سے ملے
باب ست رنگی تجھ کو دے آئی
رنگ جب تیرا آسماں سے ملے
بُھول بیٹھا ہے وہ ہمیں، لیکن
بات اس کی تو ہر فُغاں سے ملے
کل اسے شک تھا رینو منزل کا
آج ہر شخص کارواں سے ملے
رینو ورما
No comments:
Post a Comment