Monday, 20 May 2024

مجھ کو مرنے میں بھی جینے کو قرینہ چاہیے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


مجھ کو مرنے میں بھی جینے کو قرینہ چاہیے

لطفِ محبوبِﷺ خدا خاکِ مدینہ چاہیے

آئینے پر دل کے ہو نورِ محمدﷺ کی جِلا

جو قیامت تک چلے ایسا سفینہ چاہیے

جلوۂ سرکارؐ تو نظروں کا مسکن ہے مگر

چشمِ بینا چاہیے،۔ ہاں چشمِ بینا چاہیے

بحرِ عصیاں کے تلاطم کی ہمیں پروا نہیں

یا محمدﷺ یا محمدﷺ کا سفینہ چاہیے

تیرگئ قبر سے پھوٹیں گی کرنیں نور کی

ہم کو نامِ مصطفیٰﷺ کا اک نگینہ چاہیے

عیسئٰ مریم سے بھی اُس کی دوا ممکن نہیں

ہر گھڑی پیشِ نظر جس کو مدینہ چاہیے

ہر گھڑی اُن کا تصور ہر نظر اُنؐ کا خیال

عاشقوں کو اُنؐ کے اس صورت سے جینا چاہیے

دامنِ عشقِ محمدﷺ میں ملی چھانی ہوئی

میں ہوں میکش مجھ کو عارف جام و مینا چاہیے


عارف اکبرآبادی

No comments:

Post a Comment