کتنی مشکل سے اکیلے وقت گھر کاٹا گیا
وقت کو دیوار و در کو دیکھ کر کاٹا گیا
یہ گُماں ہوتا رہا، وہ آنے والا ہے ابھی
سارا دن اس آس میں دہلیز پر کاٹا گیا
چُلبلاتے تھے پرندے گھونسلوں کو دیکھ کر
گھر بنانے کے لیے جس دم شجر کاٹا گیا
ہر نئی منزل کی اک ٹھوکر سے آگاہی ہوئی
زندگانی کا اذیّت سے سفر کاٹا گیا
گھر کی اک دیوار کی پرلی طرف تھے قہقہے
دوسری دیوار سے آگے تھا سر کاٹا گیا
آج بھی صدیوں پُرانے زخم کا تازہ ہے غم
ہائے اس بسمل کا برچھی سے جگر کاٹا گیا
عمار مہدی
No comments:
Post a Comment