Sunday, 26 May 2024

ہر موج ہے افسردہ تو مغموم ہیں دھارے

 ہر موج ہے افسردہ تو مغموم ہیں دھارے

ایسے میں کوئی شور تلاطم کو پکارے

خود نکہت گُل جُرم چمن میں تھی ملوث

جب غور سے دیکھا تو نہ بجلی نہ شرارے

مائل بہ تغیر ہے یہاں فطرت بے تاب

بدنام ہیں ساقی کی نگاہوں کے اشارے

شاخوں پہ یہ بکھرے ہوئے گیسوئے پریشاں

منسوب ہیں ان سے مِرے الہام کے پارے

آئین مروت وہی ترتیب کرے گا

جو اپنے لہو سے رخِ آلام نکھارے

شاید کہ نئی فصل کی تقدیر جگا دیں

یہ ہوش میں ڈوبے ہوئے مدہوش نظارے


ساغر صدیقی

No comments:

Post a Comment