کتوں کی فوڈ اسٹریٹ
آج اتوار نہیں ہے
پھر بھی خالی جگہ اک پل میں پُر ہو جاتی ہے
چار اُٹھتے ہیں
دس آ جاتے ہیں
آج ہی کیوں ہم گھر سے نکلے
لسی، مکھن، ساگ، اچار، چاول، روٹی
تیتر بوٹی، مرغ متنجن، حیدرآبادی
دادی سب پکوا دیتیں
آرام سے گھر میں کھا لیتے
لیکن تم یہ پرانے کھانے کب کھاتی ہو
اوپر سے یہ دعویٰ بھی ہے
فوڈ اسٹریٹ کے کھانے تازہ ہوتے ہیں
تم بھی ان کا فیور کرتی رہتی ہو
کچھ کچھ فیور موسم بھی کر دیتا ہے
ساتھ چپکنے سے کیا ہو گا
ہر شے دانت بجاتی خُنکی نے سُن کر دی ہے
سب ٹھنڈا ہے
بھوک بہت ہے، لیکن جی متلاتا ہے
اندر اندر
کسی کھرونچ کا زخم ہے جو تڑپاتا ہے
آج کسی بھی میز کے نیچے مال نہیں ہے
بھوکوں کا کوئی حال نہیں ہے
آج بھی شاید پیزے سے تاکیزے کو کوئی دانت ملا ہے
کافی خوش ہے
پیٹ میں دوزخ جھونک رہا ہے
ویٹر کے بھی کان نہیں ہیں
سُن تو لے
کون کہاں سے بھونک رہا ہے
محمد یامین
No comments:
Post a Comment