یہ کیسا مُعمہ ہے میں کس حال میں پہنچا
اترا جو زمیں پر تو میں اک جال میں پہنچا
جس خال کے صدقے ہے زمیں کیا، یہ زمن کیا
نکلا جو میں خط سے تو اسی خال میں پہنچا
ظلمت کدۂ عشق میں رہ کس کو ملی ہے
جو آیا، وہی درد کے پاتال میں پہنچا
یہ کیسی علامت ہے سرِ خاکِ تمنّا
ساکت ہوا میں جونہی تو بھونچال میں پہنچا
رستے میں کئی ماہ رُخوں سے رہی صحبت
منزل پہ تو اپنی میں کئی سال میں پہنچا
ہر شخص یہاں پر ہے محبت میں گرفتار
دامن تُو کہاں کوچۂ اسفال میں پہنچا
دامن انصاری
No comments:
Post a Comment