زندگی سرد ہو گئی ہے کیا
موت ہمدرد ہو گئی ہے کیا
اک ذرا اس کی سرد مہری سے
روح تک سرد ہوگئی ہے کیا
سبز و شاداب تھی مری دنیا
دیکھیے زرد ہو گئی ہے کیا
وہ جو منزل تھی عاشقوں کی کبھی
راہ کی گرد ہو گئی ہے کیا
وصل میں ایک انجمن تھی جو
ہجر میں فرد ہو گئی ہے کیا
جو مسیحائے قلب کاشف تھی
خود ہی پر درد ہو گئی ہے کیا
کاشف شکیل
No comments:
Post a Comment