سُنا ہے غم کی جھیلوں پر پرندے اب نہیں آتے
بہت اُجڑی فصیلوں پر پرندے اب نہیں آتے
مُنافق ہوں جو اندر سے سخاوت بھی دکھاتے ہوں
سنا ایسی سبیلوں ہر پرندے اب نہیں آتے
جہاں اک بار ہو جائے اگر دھوکا کبھی ان سے
سنا ہے پھر اپیلوں پر پرندے اب نہیں آتے
شکاری جال رکھتے ہیں چھپا کر ریت کے اندر
سنا صحرا کے ٹیلوں پر پرندے اب نہیں آتے
کہاں تسکین ملتی ہے بھلا دو چار میلوں سے
سنا دو چار میلوں پر پرندے اب نہیں آتے
سمجھ بیٹھے ہیں انساں کو بہت مکار ظالم ہے
بہانوں اور حیلوں پر پرندے اب نہیں آتے
سنا ہے خوں ٹپکتا ہے کنارے پر درختوں سے
سنا ہے سرخ جھیلوں پر پرندے اب نہیں آتے
سنا ہے زہر بھرتا ہے پھلوں میں باغباں اپنے
شجر کے لب رسیلوں پر پرندے اب نہیں آتے
سنا ہے قید کرتے ہیں سنا کر بولیاں ان کی
صدائے سر سریلوں پر پرندے اب نہیں آتے
انہی رنگوں میں ہوتا ہے فریبِ زندگی باطن
تبھی پیلوں یا نیلوں پر پرندے اب نہیں آتے
باطن رجانوی
No comments:
Post a Comment