عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نعت اظہارِ ہنر سے ماوراء صنفِ سخن
جس میں سچائی کا ہر اک زاویہ درکار ہے
ہو سخن گو بے عمل تو نعتیہ اشعار کا
لفظ ہر اک خود اسی کی لوحِ جاں پر بار ہے
کیفیّت، احوال، قصہ، واقعہ، جو کچھ بھی ہو
راست لفظوں میں اگر ڈھل جائے، بیڑا پار ہے
منتخَبْ ہوں لفظ جس میں، اصل مدحت ہے وہی
حرف پیغامِ عمل سے جس میں گوہر بار ہے
جذبۂ صادق بھی ہو، سچائی کا عنصر بھی ہو
فن کی خوشبو بھی رہے جس میں وہی شہکار ہے
ورنہ ہے غاوٗن کی تنبیہ جو قرآن میں
شاعروں کے واسطے گویا پیامِ نار ہے
ہو میسر راست سمتی بھی سخن گو کو اگر
پھر تو یہ فن حزبِ شیطاں کے لیے تلوار ہے
زندگی کو جو سنوارے کام کا فن ہے وہی
ورنہ ہر اک فن مسلماں کے لیے بے کار ہے
نعت بھی بالقصد ہو اصلاحِ سیرت کے لیے
ورنہ یہ فن خود سخن گو کے لیے آزار ہے
عشقِ آقاﷺ کو تو حاجت کچھ نہیں اظہار کی
عشق یہ جس دل میں ہے وہ آپ ہی ضوبار ہے
حمدِ رب ہو، نعت ہو یا کوئی اصلاحی سخن
دین میں ایسے سخن کا کچھ عجب معیار ہے
داد بھی آقاؐ سے پا لیتا ہے شاعر خواب میں
گر سخن تعلیمِ دین اللہ سے ضوبار ہے
جس سخن کو شاہِ دیں سے داد مل جائے عزیز
اس کو دنیا کہنے لگتی ہے کہ یہ شہکار ہے
عزیز احسن
No comments:
Post a Comment